Wednesday, 02 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Moazzam Ali
  4. Paigham Rasani

Paigham Rasani

پیغام رسانی

یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں موصول شدہ پیغام کو مخاطبین کی طرف بلا حیل و حجت من وعن پہنچانا ہوتا ہے۔ اس میں تشریح و توضیح کی گنجائش بہرحال موجود ہوتی ہے لیکن تنقیص و تحریف ہرگز گوارہ نہیں کی جاتی۔ پیغام کی بلاغت سے قبل، پیغام رساں کی فصاحت وبلاغت اور سیرت و کردار کا اعلیٰ وعرفہ ہونا بھی پیشِ نظر رکھا جاتا ہے تاکہ جب پیغام مطلوبہ افراد تک پہنچایا جائے تو پیغمبر اُس پیغام کی نوعیت واہمیت کو اچھی طرح سمجھ لے کہ جب تک فہم و فراست نہیں ہوگی پیغام کو بہتر طور پر سمجھا نہ جا سکے گا اور جب پیغام ہی سمجھا نہ جا سکے تودوسروں تک خوب تر انداز میں پہنچایا کیسے جائے گا اور جب پیغام رساں، پیغام کی تبلیغ کریگا تو پیغمبر کا خود کا کردار کیسا ہے؟ اگر کردار صادق و امین ہے تو پیغام پہنچانے میں ذاتی کردار حائل نہ ہوگا اور اگر خود کا کردار مشکوک ہو تو پیغام کی قدر و قیمت ختم ہو جائے گی اور عمل صرف کارِ زیاں ثابت ہوگا لہذا مذکورہ عناصر کا پیغام رساں کی ذات میں پایا جانا لازم وملزوم امرہے۔

تاریخِ انسانی میں جتنے بھی پیغمبر ہو گزرے، جنہوں نے زندگیوں میں انقلاب برپا کیا، اُن سب کی سیرت کا مطالعہ اس دعوٰی پر دلیل ہے کہ وہ دیگر خصوصیات کے ساتھ ساتھ اِن مذکورہ خصائص کے متحمل بھی تھے لیکن جب بات کی جائے اسلامی تعلیمات کو تاریخی لحاظ سے بیان کرنے کے حوالے سے تو سماعت و بصارت کے مشاہدے میں بہت ساری خرافات آتی ہیں کہ جن سے عیاں ہوتا ہے کہ پیغام کو جس طرز پر پہنچایا جانا چاہیے تھا ویسا رویّہ اختیار نہیں کیا گیا۔ دیگر خُرافات کے ساتھ جس کو نمایاں حیثیت حاصل ہے وہ عرب میں اسلام کی آمد سے قبل کے دور کے حوالے سے اختیار کیا گیا مؤقف جسے "زمانہ جاہلیت" سے تعبیر کیا جاتا ہے کے بارے میں ہے۔

اس موضوع پر مبلغین کے دلائل کو سن کر محسوس ہوتا ہے کہ اس دور کے حوالے سے درست تفہیم حاصل نہیں کی گئی جس کی وجہ سے متضاد توضیحات و تشریحات سامنے آتی ہیں۔ جیساکہ جب ان الفاظ کو طرزِ تحریر و تقریر میں استعمال کیا جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے "زمانہ جاہلیت" کے ضمن میں تمام اہلِ عرب کو اَن پڑگ، گنوار اور بیوقوف شمار کر لیا گیا ہے اور تمام قسم کی خرافات کو ان کی طرف منسوب کرکےاسلام کی آمد کو بیان کیا گیا ہے تاکہ دونوں ادوار میں فرق کو نمایاں کیا جا سکے لیکن یہاں ایک دوسرا پہلو بھی زیرِ بحث لائے جانے کا متقاضی ہے جو کئی اور موضوعات کی طرف رہنمائی کرتا دیکھائی دیتا ہے۔

جس طرح کہ لفظ "زمانہ جاہلیت" سے ناواقفیت کا عُنصر بھی نمایاں ہوتا ہے کہ بعض افراد علم و مرتبہ میں ایک بلند مقام حاصل کرنے کے باوجود بعض علمی وعملی پہلوؤں سے واقف نہیں ہو پاتے اور اُن کی ناواقفیت کو جاہلیت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے لیکن انہیں کسی صورت بھی کامل طور پر جاہل نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اِس طرح اُن کے علم و عمل پر کاری ضرب لگے گی، اُن کے مقام و مرتبہ میں کمی آئے گی اور اُن میں موجود دیگر خصوصیات پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ بعینہ اسلام کی آمد سے قبل کے زمانے کو جب بیان کیا جاتا ہے اُس دور میں موجود افراد کو کامل طور پر جاہل نہیں شمار کیا جا سکتا کیونکہ اسلام کی آمد سے قبل اُس معاشرے میں موجود افراد حلف الفضول جیسے معاہدات طے کرتے تھے، مہمان نواز تھے، فراخ دل تھے، جیسا کہ آپﷺ کے دادا محترم حضرت سیدنا عبد اللہ بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ نے قرعہ فال نکلنے کی صورت میں 100 اونٹوں کا ذبح کرنے کا عہد کیا تھا۔

اہل عرب مکہ میں مسافروں کے قیام و طعام کے لئے سرگرداں رہتے تھے، مشاعروں کی محافل میں شعراء حضرات کلام پیش کرتے اور بہترین کلام کو کعبہ کی دیوار کے ساتھ لٹکایا جاتا جنہیں "سبعہ معلقات" سے منسوب کیا جاتا ہے اور اِسی طرح کے دیگر پہلو بھی موجود ہیں جنہیں احاطہ خیال میں لایا جاسکتا ہے اور اُس وقت کے معاشرے کے خدوخال کو واضح کیا جا سکتا ہے کہ جن سے عیاں ہوتا ہے کہ انہیں کامل طور پر جاہل گردانا جانا کسی بھی طرح درست عمل نہیں۔ تحقیق کرنے سے اور بھی کئی پہلو نمایاں تر ہو جائیں گے جو اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ "جاہلیت" کے لفظ کا جس طرح اطلاق کیا جاتا ہے وہ درست طریقہ نہیں۔ اس کی ازسرِ نو ترتیب وتنظیم از حد ضروری ہے۔

کیونکہ "جاہلیت" کا مطلق اطلاق کرنے سے آنحضورِ اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کے وہ چالیس سال (40) بھی اُسی دور میں شامل ہو جاتے ہیں جو دعوٰی اکثر مبلغین کرتے ہیں جبکہ آنحضورِ اکرم ﷺ نے اسلام کی دعوت کا آغاز عمر مباک کے اکیالیسویں (41) سال میں کیا تو کیا اُس سے قبل کے 40 سال بھی زمانہ جاہلیت میں ہی گزرے؟ لہذا تھوڑا زاویہ نظر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

آسان تفہیم کے لئے ایک مثال بیان کی جاتی ہے کہ آج بھی مقامی سطح پر کہیں بھی کسی بھی قِسم کی بیٹھک کا انتظام کیا جائے اور شریک بیٹھک میں شعراء حضرات کو اپنا کلام پیش کرنے کی دعوت دی جائے تو عام مشاہدے کی بات ہے کہ حاضرینِ محفل میں سے ہر فرد مختلف احساسات و جذبات کا اظہار کریگا۔ کچھ افراد شعر کی ترتیب و تنظیم پر داد دیں گے، کچھ افراد شعر میں موجود الفاظ کے چناؤ پر واہ واہ کریں گے، کچھ افراد اُن اشعار میں پنہاں پیغام کو سمجھ کر اَشّ اَشّ کر اٹھیں گے اور کچھ ایسے بھی ہوں گے جو کسی بھی طرح کے شعر پر کوئی بھی ردِ عمل ظاہر نہیں کریں گے تو کیا اُس ایک محفل میں موجود سبھی افراد پر مطلق جاہل ہونے کا اطلاق کیا جا سکتا ہے؟

عقلی استدلال سے ایسا کرنا ممکن نہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جب قرآن مجید کا نزول ہو رہا تھاتو اُس سے کچھ عرصہ قبل خاص طور پر اہل مکہ اور عمومی طور پر تمام اہلِ عرب مطلق جاہل تھے؟ انہیں کسی بھی قِسم کا شعور حاصل نہیں تھا۔ اُن میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی لحاظ سے فہم وفراست موجود نہیں تھی۔ ممکنہ طور پر یہ ایک غلط طرزِ فکر ہوگا تو پھر پیغام رسانی کے عمل کو از سرِ نو تشکیل دینا ہوگا اور سمجھنا ہوگا کہ فارس کے رہنے والے حضرت سلیمانؓ اسلام کے دامن میں کیسے پہنچے؟

دیکھنا ہوگا کہ حبشہ کے رہنے والے سیدنا حضرت بلالؓ پر کلام مجید کا کیسے اسقدر گہرا اثر ہوا کہ ظلم وستم کے پہاڑ ٹوٹ گئے مگر آپؓ کے پایہ استقلال میں لغزش پیدا نہ ہوئی؟ کیسے عمر بن خطاب سورۃ "طٰہٰ" کی چند آیات سن کر حضرت عمر فاروقؓ کے مقام پر پہنچے؟ حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عثمانِ غنی و دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کا حلقہ بگوش اسلام میں آنا کس قدر آسان تھا؟

اہل یثرب کا مکہ کی وادیوں میں بیعت کرنا صرف ایک سیاسی عمل تھا جس کے سبب ہم عصر قبائل پر برتری حاصل کی گئی یا اس بیعت کا مقصد کچھ بھی تھا؟ اور اگر وہ مقصد سیاسی لحاظ سے تھا تو وہ انہیں حاصل ہوگیا۔ مزید بڑھایا جائے تو فتح مکہ کی صورت میں تمام عرب پر برتری حاصل کر چکے تھےمگر اُن کے ایثار وقربانی کا عمل تاحال جاری رہا تو کوئی بات منفرد ضرور تھی جس کے باعث اہل عرب میں "ختم الُرسُل" کو مبعوث کیا گیا۔ فصاحت و بلاغت جس کے بعد نقطہ عروج کو پا چکی۔ علم وعمل بہترین صورت میں جاگزیں ہو چکے۔ قلم کی سیاہی خشک ہو چکی کہ اب تبدیلی ممکن ہی نہیں۔

لہذا پیغام کی بہترین تفہیم کے لئے پیغام رسانی کے عمل کو دیکھنا ہوگا کہ اختیار کیے گیے طرز عمل سے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ کیا وہ اثرات مثبت فکر پیدا کر رہے ہیں یا منفی رویّوں کو جنم دے رہے ہیں۔ یہ تضاد مبلغین کو مقدم رکھنا چاہیے تاکہ اسلام کی جو حقیقی حقانیت ہے وہ خود بخود واضح ہو جائے نہ کہ افراد اپنی کاوشوں سے ثابت کرنے میں لگے رہیں اور جوشِ خطابت میں معاملہ کسی اور انداز میں پیش ہو جائے۔ یہ ایک محتاط طرزِ فکر وعمل ہےجو ہر لمحہ احتیاط کا متقاضی ہے جسے جذبات کے حوالے ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔

Check Also

Hawai Firing Aur Awam

By Sadiq Anwar Mian