Kon Kis Ke Sath Hai?
کون کس کے ساتھ ہے؟
قومی سیاست میں خاصی ہلچل مچی ہوئی ہے، ایک غیر یقینی صورتحال ہے جو ہر گزرتے لمحے بدلتی نظر آرہی ہے۔ متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔ اسپیكر 14 روز میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے پابند ہیں جبکہ 7 روز میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانا ہوگی۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اپوزیشن کو 172 ووٹ درکار ہیں جبکہ اس وقت متحدہ اپوزیشن کے پاس 162 اراکین موجود ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنی اپنی کامیابی کے لیے پر امید ہیں جبکہ دوسری طرف ق لیگ کے بعد ترین گروپ ایک بار پھر اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنماء علیم خان 40 اراکین کی حمایت کے دعوے کے ساتھ ترین گروپ میں شامل ہوگئے ہیں۔ ترین گروپ کا کہنا ہے کہ مائنس عثمان بزدار سے کم پر بات نہیں ہوگی اگر ترین گروپ سے وزیر اعلیٰ نہ بنایا گیا تو تحریک عدم اعتماد میں ہمارے پاس آپشن موجود ہیں، حتمی فیصلہ جہانگیر خان ترین کریں گے۔ دوسری طرف قاف لیگ کے رہنما چوہدری شجاعت حسین کی مولانا فضل الرحمٰن کے گھر آمد بھی معنی خیز ہے، دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں تحریک عدم اعتماد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ بیساکھیوں کے سہارے کچھ دیر تک تو کھڑا رہا جاسکتا ہے مگر مستقل طور پر کھڑا رہنا نا ممکن ہوتا ہے۔
ہم تو پہلے بھی کئی بار انہی صفحات پر عرض کر چکے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا یہاں مفاد دھڑکتے ہیں، بد قسمتی سے ہمارے ہاں نہ تو جمہوریت میں کوئی نظریات ہوتے ہیں اور نہ ہی نظریات میں کوئی جمہوریت۔ بلکہ سچ تو یہ ہے اس فرسودہ اور استحصالی نظام میں ہر اصول، ہر قانون، ہر ضابطہ اور نظریہ مفاد سے شروع ہوتا ہے اور مفاد پر ختم ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے ہاں اخلاقیات کا پیمانہ یہ ہے کہ یہاں نہ تو کوئی اخلاقیات ہے اور نہ ہی کوئی پیمانہ ہے۔ یہی وجہ ہے ہمارے ہاں سیاستدانوں کا پارٹیاں بدلنا، لیڈر بدلنا اور بیان بدلنا ایک عام سی بات ہے۔
2018 میں پاکستان پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے والے ندیم افضل چن، گزشتہ روز پی ٹی آئی کو چھوڑ کر دوبارہ پی پی پی میں شامل ہوئے تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی اور نہ ہی اس بات پر کوئی حیرت ہوئی کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے پروٹوکول کے ساتھ اسے قبول کر لیا۔ آج تحریک انصاف کے جو لوگ ندیم افضل چن کو غیر اہم شخصیت قرار دے رہے ہیں، کل جب وہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر آئے تھے تو اس کی تعریفوں میں زمین، آسمان کی قلابیں ملا رہے تھے اور آج پی پی پی والے جو اس کے حق میں بڑے بڑے بیانات دے رہے ہیں، کل جب وہ گئے تھے تو اس وقت لوٹا مفاد پرست اور نہ جانے کن کن القابات سے نواز رہے تھے۔
ویسے تو ہر چیز کے بدلنے کا موسم ہوتا ہے مگر سیاستدانوں کے بدلنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا۔ یہ ناشتہ ایک جماعت میں کرتے ہیں تو لنچ دوسری جماعت میں اور شام کا کھانا تیسری جماعت کی میز پر کھاتے ہیں۔ مگر کسی بھی جماعت کے اقتدار کے آخری دنوں یا انتخابات کے وقت یا پھر اعتماد کے ووٹ یا عدم اعتماد کی صورتحال میں پارٹیاں بدلنے والوں کی اہمیت اور ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں موقع پرست، مفاد پرست، الیکٹیبلز اور پارٹیاں بدلنے والوں کی اہمیت آخر اتنی زیادہ کیوں ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری سیاسی جماعتیں ہیں جو اقتدار کی خاطر اقدار کو مفاد کے پاؤں تلے روند ڈالتی ہیں۔
پاکستان تحریک ِانصاف کے سربراہ عمران خان کو سامنے رکھ لیں، انھوں نے کسی دور میں پرویز الہٰی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا تھا مگر آج وہی پرویز الہٰی ان کے سب سے بڑے اتحادی ہیں اور پنجاب میں اسپیکر صوبائی اسمبلی ہیں۔ جبکہ موجودہ صورتحال میں وزیر اعظم ان کی رہائش گاہ پر حاضری بھی دے چکے ہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم کے جرائم اور ماضی میں عمران خان کے موقف کے بارے میں کون واقف نہیں ؟ مگر آج ایم کیو ایم بھی تحریک انصاف کی سب سے بڑی اتحادی ہے۔ جبکہ شیخ رشید کو انھوں نے چپڑاسی نہ رکھنے کی بات کی تھی مگر کئی وزارتوں کے بعد آج وہ وزیر داخلہ ہیں۔
اسی طرح ماضی میں پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی اختلافات نے ملک کو نفرت کی جس بھٹی میں جھونکا، اسے ہم کیسے بھلا سکتے ہیں؟ اخلاقیات کا جس طرح جنازہ نکالا گیا اسے ہم کیسے فراموش کر سکتے ہیں ؟ کسی دور میں شہباز شریف، آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑنے کی باتیں کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے اور پھر وقت بدلا تو میثاق جمہوریت اور پھر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے متحد ہوئے اور آج تحریک عدم اعتماد کے لیے پھر ایک نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح پرویز الہٰی کو ماضی میں قاتل اعلیٰ کہنے والے آصف زرداری نے اپنے دور میں نیا عہدہ تخلیق کر کے انہیں ڈپٹی وزیر اعظم بنا دیا۔
جبکہ موجودہ حالات میں تحریک انصاف کی حکومت بنانے کے لیے بھاگ دوڑ کرنے اور آزاد اراکین کے ذریعے حکومت سازی میں اہم رول ادا کرنے والے جہانگیر ترین کو اپوزیشن کے لوگ چینی چور اور عمران خان کی اے ٹی ایم مشین کہتے تھے، مگر آج وہی جہانگیر ترین ان کی امیدوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت تک اس ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں آسکتی جب تک سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت نہیں لائیں گیں۔ جب سیاسی جماعتوں میں اصول، قانون، ضابطہ اور اخلاقیات نہیں ہوگی تو ہماری سوسائٹی اور ملک میں کیا اصول اور کیا اخلاقیات مظبوط ہوگی؟
بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں اخلاقی اور قانونی تقاضوں اور اصول و ضوابط کو نظر انداز کر کے ہمیشہ الیکٹیبلز کا سہارا لیتی ہیں اور پھر اس کا خمیازہ انہیں اس وقت بھگتنا پڑتا ہے جب حکومت پر کوئی کڑا وقت آتا ہے، جیسا کہ آج کل پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو سامنا ہے۔ خفیہ اداروں نے ایسے 28 اراکین کی لسٹ فراہم کی ہے جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ جو تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ ان میں اکثریت ان اراکین کی ہے جو دوسری جماعتوں سے پی ٹی آئی میں آئے تھے۔
جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کوئی کسی کے ساتھ نہیں بلکہ سب کے سب اپنے مفادات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ بہر حال تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا ناکام؟ لیکن اگر ملک ایک بحران سے نکلتے نکلتے کسی نئے بحران میں پھنس گیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ضرورت اس امر کی ہےکہ حکومت اپوزیشن اور سیاسی جماعتیں جو بھی قدم اٹھاتی ہیں انہیں یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے، یہ ملک اور قوم کسی نئے نقصان کے متحمل نہیں ہوسکتے۔