Etemad Ka Vote Aur Voter Ka Etemad
اعتماد کا ووٹ اور ووٹر کا اعتماد
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنی جماعت کی حکومت میں اپنی ہی اکثریتی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر کے یہ باور کرا دیا ہے کہ انہیں ایوان کا اعتماد حاصل ہے اور اکثریت اب بھی ان پر بھر پور اعتماد کرتی ہے یقیناً اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب یہ محسوس ہو کہ وزیر اعظم ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں اور انہیں دوبارہ ایوان کے پاس جانا چاہئے تو آئینی طور پر صدر مملکت خط لکھ کر وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سینٹ کے الیکشن میں اسلام آباد کی جنرل سیٹ پر حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کی اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں اپ سیٹ شکست کے بعد جس طرح حکومت کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور پھر جس طرح اپوزیشن نے وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا وہ ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں لہذا انہیں گھر چلے جانا چاہئے ایسی صورتحال میں اعتماد کا ووٹ لینا ضروری ہوگیا تھا یوں وزیر اعظم کو ایوان سے پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے 178 ووٹ ملے یعنی ان 16 اراکین نے بھی وزیر اعظم پر اعتماد کا اظہار کیا جو عمران خان کے بقول بکاؤ مال تھے اور جنہوں نے کروڑوں کے عوض اپنے ضمیر کا سودا کیا مگر یہ کوئی نئی بات نہیں وطن عزیز میں بیچی جانے والی چیزوں میں ضمیر آج بھی پہلے نمبر پر ہے یوں تو اس ملک میں جمہوریت کے نام پر انتخابات کا جو کھیل کھیلا جاتا ہے اس میں کھیل سے کھلاڑیوں تک اور کھلاڑیوں سے منیجمنٹ تک سب پیسے کی گرد گھومتے ہیں جس کے پاس جتنا زیادہ پیسہ ہوتا ہے وہ اتنا ہی بڑا کھلاڑی ہوتا ہے اور یہاں جتنا کوئی زیادہ پیسہ لگاتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ کماتا ہے مگر سینٹ کا الیکشن اس سے کہیں آگے ہے جو کروڑوں سے شروع ہوتا ہے اور اربوں کے گرد گھومتا ہے سینٹ انتخابات کے اس دھندے میں صرف دو قسم کے لوگ ہی کامیاب ہیں ایک وہ جو خریدنے کی سکت رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو بکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس شرمناک دھندے وہ لوگ ملوث ہیں جنہیں ہم اپنا نمائندہ بنا کر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کا دھندہ سینٹ کے ہر انتخابات میں ہوتا ہے سب جانتے ہیں سب کرتے ہیں مگر کسی بھی سیاسی جماعت اور ریاستی ادارے نے آج تک اس گھناؤنے دھندے کو روکنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی کیونکہ یہی تو وہ ہتھیار ہے جسے استعمال کر کے کھیل بنائے اور بگاڑے جاتے ہیں۔
مگر پاکستان تحریک انصاف سے گلہ اس لیے بھی کہیں زیادہ ہے کہ یہ جماعت روایت شکنی کے دعوے کر کے آئی تھی مگر روایات میں کھو گئی اس نے نظام تبدیل کرنے کی بات کی تھی مگر خود تبدیل ہوگئی 2018 کے سینٹ انتخابات میں بھی ایسا ہوا تھا جس کی ویڈیو اب سامنے آئی جس میں پی ٹی آئی کے لوگوں کی خرید و فروخت ہورہی ہے اس وقت عمران خان نے 14 اراکین کے پی اسمبلی سے استعفے لیے اور یہ بھی کہا ہمارے پاس ثبوت ہیں مگر اس کے بعد ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی اور اب بھی یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگ ضمیر فروشی میں ملوث ہیں تو کیا آنے والے دنوں میں ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی یا گیلانی کو ووٹ دے کر ضمیر کا سودا کرنے والے عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دینے کے بعد پوتر ہوگئے ہیں؟
اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے اس سے بڑھ کر سبق نہیں ہوسکتا کہ اسمبلی میں اکثریت رکھنے کے باوجود وہ اپنا سنیٹر منتخب نہیں کرا سکے کیونکہ جن الیکٹیبل کی بنیاد پر تحریک انصاف کی عمارت کھڑی کی گئی تھی اور جن کے بل بوتے پر عمران خان وزیر اعظم بنے یہی وہی الیکٹیبل ہیں جو کسی بھی جماعت یا حکومت میں ہوں اسی طرح کا کردار ادا کرتے ہیں جس طرح آج کر رہے ہیں ان الیکٹیبل کا کسی جماعت میں ہونا نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے یہ لوگ پاس تو ہوتے ہیں مگر ساتھ نہیں ہوتے یہ لوگ کبھی ترین کے ہیلی کاپٹر کے مسافر ہوتے ہیں، کبھی مری بھورپن کی سیر پر اور کبھی چھانگا مانگا میں کروڑوں کے لقمے ہضم کر رہے ہوتے ہیں ایسے لوگوں کے زریعے حکومت بنا کر یہ امید رکھنا کہ ہماری حکومت مضبوط ہے اور ہم اپنے منشور پر جلد عمل درآمد کر کے سرخرو ہوجائیں گے ایک خام خالی ہوتی ہے جس کا شکار آج کل پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔
بہر حال خوشی ہوئی کہ وزیر اعظم ایک بار پھر ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوگئے اور پہلے سے دو ووٹ زیادہ لیے مگر کیا اب وزیر اعظم پورے ملک کے ان کروڑوں ووٹروں کا اعتماد بحال کر پائیں گے جنہوں نے عمران خان کے دعوؤں، وعدوں اور باتوں پر اعتماد کر کے ان کی جماعت کو کامیاب کرایا جنہوں نے اس بات پر اعتماد کیا کہ ملک میں کڑا اور بے رحمانہ احتساب ہوگا لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے گی چوروں اور لٹیروں کو عبرتناک سزا دی جائے گی جن ووٹروں نے اس بات پر اعتماد کا اظہار کیا عمران خان ملک میں تبدیلی لاکر حقیقی جمہوریت کو فروغ دیں گے صاف ستھرے لوگوں کو سامنے لائیں گے، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے لیے بلدیاتی انتخابات کرائیں گے اور مقامی حکومتوں کو بااختیار بنائیں گے، انتخابی اصلاحات کر کے آسان اور صاف شفاف انتخابات کو یقینی بنائیں گے پولیس میں اصلاحات کر کے اسے عملی طور پر لوگوں کے جان و مال کا محافظ بنائیں گے اور جن ووٹروں نے اس بات پر اعتماد کیا کہ عمران خان کامیاب ہونے کے بھوک، غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھائیں گے مافیاز کا جینا محال کر دیں گے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دیں گے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنائیں گے مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے گزشتہ اڑھائی سال کی کارکردگی دیکھ کر ان تمام ووٹروں کا جو اعتماد ٹوٹا ہے اس نے تحریک انصاف کو بھی ماضی کے حکمرانوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے اور اگر پارلیمنٹ میں سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے والے عمران خان نے اگلے اڑھائی سالوں میں ان کروڑوں ووٹروں کا اعتماد بحال نہ کر سکے تو آنے والے انتخابات کے نتائج بھی سینٹ انتخابات کے نتائج کی طرح عمران خان کے لیے حیران کن ہی نہیں بلکہ پریشان کن بھی ہوسکتے ہیں۔