The Book Smuggler
دی بک سمگلر
یہ ایک تاریخی افسانہ جو دی بک سمگلر The Book Smuggler کے نام سے انگریزی میں ترجمہ ہوا، یہ گیارہویں صدی عیسوی کے عہد کا اسلام کے سنہری دور سے تعلق رکھنے والا ایک غیر معمولی قصہ ہے۔ یہ ناول جزیرہ نما عرب کے ایک گاؤں حجر الیمامہ سے تعلق رکھنے والے ایک کردار ماجد النجدی الحنفی کے بارے میں ہے جو اس عہد میں ایک کتاب دوست شخص تھا، مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ جس کا کاروبار بھی کتاب سے ہی منسلک تھا۔
ماجد النجدی الحنفی کو کتابوں سے محبت کے ساتھ ساتھ دنیا دیکھنے کا شوق ہے اور وہ دنیا کو دیکھنے کے لئے سفر کرتا ہے، اس سفر کے دوران ماجد النجدی الحنفی اپنے سیکھنے کے شوق کی تکمیل بھی کرتا ہے۔ اس ناول کی کہانی ماجد کے سفر کے لئے گھر چھوڑنے کے تین سال بعد شروع ہوتی ہے، جب اسلامی دنیا میں فاطمی، امیہ اور عباسی خاندانوں نیز سیاسی و مذہبی گروہوں کے مابین مستقل طور پر منتقلی کا عمل جاری تھا۔
خانہ جنگی اور تنازعات نے اس پورے خطے کو بغاوت کے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ اس کتاب کے قاری کو اس عہد کے مذہبی اختلافات اور حقیقت کا ایسا رنگ محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود اس عہد میں موجود ہے۔ ماجد النجدی جس شہر بھی جاتے ہیں وہاں کی مساجد میں مباحثے کے حلقوں میں بیٹھتے ہیں تاکہ اس دور کے واقعات اور ان کے حامیوں اور مخالفین کے بارے میں جان سکیں۔
اس ناول کے مرکزی کردار ماجد النجدی الحنفی کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اگرچہ بہت سے لوگ اس کی تعلیم اور کھوج اور تجسس سے پیار تو کرتے ہیں لیکن کئی ایک لوگ نئے فلسفے کی ترویج یا لکھنے والوں کو توہین اور گستاخی کے مترادف بھی شمار کرتے ہیں۔ ماجد النجدی الحنفی کو اس عہد کے بڑے ادباء و فلاسفہ جیسے المتنبی، ال اصفہانی، ابو حیان، الکندی، ابن ہیثم یونانی فلاسفر اور دیگر عظیم مفکرین کی کتابیں اور مخطوطات جلائے جانے اور گم ہونے کے خطرات سے دوچار حالات کا سامنا دیکھنا پڑتا ہے۔
جسے دیکھ کر ماجد النجدی الحنفی ایک کتاب دوست اور اس کاروبار سے متعلقہ حیثیت سے اپنا کریئر ایک خطرناک صورتحال میں ڈال دیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ انہیں علم کے خزانوں کو بغداد سے بیت المقدس اور قاہرہ سے اندلس منتقل کرنا ہو گا جس سے وہ سائنسی اور فلسفیانہ کاموں کے بارے میں روشنی پھیلا سکیں جس کی وہ حفاظت کر رہے ہیں۔
اس ناول میں جیسے جیسے ماجد النجدی الحنفی کی دنیا میں تبدیلی آنا شروع ہوتی ہے، وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی کئی ایک خواہشوں کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں اور ایک ایسا انسان بنتے جا رہا ہے جسے علم کی خواہش متحرک رکھتی ہے۔ اس ناول میں کی گئی اس عہد کی وضاحتیں، حیرت انگیز طور پر تفصیلی تاریخ اور ناول کا تسلسل ایک ہلکے پھلکے انداز میں ہے۔
معمولی وسائل اور خوبصورت دل رکھنے والے انسان ماجد النجدی کے ذریعے امیمہ عبداللہ الخمیس نے اپنے قارئین کو تاریخ کی تلاش سے متعلق ایک بہترین کہانی اور اس کے ہیروز کی داستان سناتی ہیں، امیمہ عبداللہ الخمیس اپنی عمدہ ناول نگاری اور قلم کے ذریعے ایک ایسی تاریخ کو خراج عقیدت پیش کرتی نظر آتی ہیں جس کی جڑیں بہت گہری ہیں، اس میں تناؤ ہے اور یہ خوشگوار بھی ہے۔
اس ناول میں آج کے عہد کے وہ مرد و خواتین جو مذہب اور معاشرے کی کھوج اور تجسس کا شوق اور ولولہ وقت کے خوف کو جاننا چاہتے ہیں ان کے لئے یہ ایک بہترین ناول ہے جو خیالات اور زندگیوں پر قابو پانا چاہتے ہیں۔ اس ناول کی مصنفہ امیمہ عبداللہ الخمیس نے جس طرح سے اس دور کو اپنی تحریر میں سمویا ہے، وہ لبنانی نژاد فرانسیسی مصنف امین مولوف (Amin Maalouf) کی کتاب (The Crusades Through Arab Eyes) کی یاد بھی تازہ کرتا ہے۔ جس میں انہوں نے اس عہد کے واقعات کو لکھا ہے۔
امیمہ عبداللہ الخمیس۔
امیمہ عبداللہ الخمیس Omaima Abdullah Al Khamis سعودی عرب میں آج کے عہد کی ایک معروف مصنفہ اور ناول نگار Saudi Arabian writer & Fiction Novelst ہیں۔ سنہء 1966 دارلحکومت ریاض میں پیدا ہوئیں، کنگ سعود یونیورسٹی سے عربی ادب میں بیچلرز کیا اور عملی زندگی کا آغاز شعبہ تعلیم میں بحثیت استاد کیا، امیمہ عبداللہ الخمیس نے کئی کتابیں لکھی، جن میں ناول، افسانے اور بچوں کا ادب بھی شامل ہے۔
سنہء 1993 تک ان کی چار چھوٹی کہانیاں آ چکی تھیں، سنہء 2006 میں ان کا پہلا ناول Al Bahriya کے نام سے آیا، جس کے سات ایڈیشن چھپے اور ایک اسپیشل ایڈیشن مصر سے بھی پبلش ہوا۔ امیمہ عبداللہ الخمیس کا دوسرا ناول سنہء 2008 میں "الوارقتہ" (The Leafy Tree) کے نام سے پبلش ہوا۔ سنہء 2018 میں انہیں اپنے ایک تاریخی افسانے جس کا عربی نام "مسری الغرانیق فی مدن العقیق" (The Book Smuggler) پر عربی ادب کا سب سے بڑا اعزاز "نجیب محفوظ ایوارڈ" بھی دیا گیا تھا۔ جس کا انگریزی ترجمہ "دی بک سمگلر" (The Book Smuggler) کے نام سے سارہ عنانی نے کیا ہے۔
نوٹ: اس ناول کو دوبارہ سارہ عنانی Sarah Enany نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے، سارہ عنانی نے ڈرامہ آرٹ میں ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے اس وقت وہ قاہرہ یونیورسٹی میں استاد ہیں۔ انہیں The first volume of the trilogy، Diary of a Jewish Muslim، ترجمہ کرنے پر Banipal Prize اعزاز بھی مل چکا ہے۔