Tarjume Ki Tareef
ترجمے کی تعریف
عربی میں حالیہ ایک کتاب کا ترجمہ ہوا ہے جو کینڈین ارجنٹائنی نژاد Alberto Manguel کی کتاب کا ہے، مزے کی بات ہے کہ یہ کتاب خود ترجمے کے فن کی آگاہی پر ہے۔ مینگوئل نے ترجمے کے موضوع میں دلچسپی کے اپنے محرکات کی نشاندہی، ترجمے کی اہمیت ترجمے کے کردار اس کے زوال پر بات کی ہے۔
حقیقتا کسی کتاب یا متن کا ترجمہ کرنا ایک فن ہے، جب آپ کسی کا ترجمہ شدہ مواد پڑھتے ہیں تو پڑھنے والے کا علم اس اصل متن کے بجائے ترجمہ شدہ متن تک محدود ہو جاتا ہے، لیکن یہ ممکن ہے کہ اصل متن اس سے بالکل غائب ہوجائے، کیونکہ کبھی کبھی ترجمے کے اصل متن کا مفہوم آپ تک نہیں پہنچتا، بلکہ ترجمہ کرنے والے کے خیالات بھی اس میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں، مصنف کے اصل متن کا تعلق اس کے اپنی ذہنی خیالات سے ہوتا ہے جو وہ لکھ رہا ہوتا ہے، اور مترجم جو کچھ لکھتا ہے وہ کوشش کر رہا ہوتا ہے کہ وہ متن کے اصل مفہوم کو بیان کرے، لیکن اس کی یہ کوشش خامیوں کی زد میں ہی رہتی ہے، یہ کبھی ممکن نہیں ہو پاتا کہ تخلیقی تصور کے متن کو زبانوں کے درمیان بغیر خامی کے ساتھ پیش کیا جاسکے۔
کسی شخص کا اصل خیال بھی دیوار پر حقیقت کی تصویر کے انعکاس کی طرح ہوتا ہے اور ترجمہ اس کا ایک اور مزید سایہ بن جاتا ہے۔ یعنی پہلے سے موجود ایک سائے اور ایک اور سایہ۔ یہ ایک مشکل فن اس لئے بھی ہے کہ مترجم کسی دوسری زبان کے متن کے انداز اور مواد کو مقامی بناتے، موافق بناتے اور اس میں ترمیم کرتے ہیں۔
اس لئے ہر ترجمہ متن کے لیے ایک نئی زندگی ہوتا ہے، قرون وسطی میں لاطینی زبان میں لفظ "ترجمہ" کا مطلب ایک مقدس تصور یا متن کے آثار کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا تھا، اور مقدس آثار کے حاملین کی طرح، مترجم اس کی ظاہری شکل کے متن کو چھین لیتے یا بدل دیتے ہیں، اور اسے ان کی اصل زبان کی مٹی سے تبدیل کردیتے ہیں، ویسے یہ اصل متن کے لیے بھی ایک خوبصورتی کے مترادف ہے، کہ اصل متن میں سے ایک اور نئے متن کا ترجمے کی صورت ابھرنا۔ جو اصل متن کی شاید موت بھی بن سکتا ہے، ترجمہ کرنا یا پڑھنا اصل متن کی ایک نئی شکل بن جاتی ہے، اور یہ تمام یکے بعد دیگرے خود متن کا حصہ بن جاتے ہیں یعنی "ہم کبھی بھی اصل متن کو نہیں پڑھتے، بلکہ اس کے بار بار پڑھنے کی جمع تاریخ کو پڑھتے ہیں"۔
ہم خیالات کی وضاحت کے لیے بعض اوقات غیرملکی افسانوں، کبھی فلسفہ، کہانیوں اور ادبی اقتباسات کا استعمال کرتے ہیں، دنیا کا ہر متن اپنے ارد گرد لپٹی ہوئی واحد ہستی ہے، پھر وہی متن تخلیق کی شکل اختیار کرنا شروع کر دیتا ہے۔ پھر یہ اصل متن دو میں تقسیم۔ ہوکر ایک طرف اصل متن اور پھر دوسری طرف ترجمہ شدہ بلکہ تشریح شدہ متن بھی بن جاتا ہے۔ کیونکہ ترجمہ بھی تشریح کی ہی ایک قسم بن جاتا ہے۔ دنیا میں تمام تراجم بھی ایک ہی معیار کے نہیں ہوتے۔ والٹیئر نے لکھا تھا کہ " غلط ترجمہ کرنے والوں پر لعنت بھیجیں، جو ہر لفظ کو بدل دیتے ہیں اور اس کا مطلب نکال دیتے ہیں۔ "
اکثر ترجمے کی کوشش ناکام ہوجاتی ہیں، کیونکہ ادبی الہام سے پھوٹنے والا آہنگ اپنی مٹھاس اور مستقل مزاجی کو قربان کیے بغیر ترجمہ قبول نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اصل متن کی نظموں کے آہنگ کا ترجمہ اتنا پراثر نہیں رہتا، وہ اس اصل متن کے آہنگ کی دل پذیری کو غائب کردیتا ہے۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہر ترجمہ اصل متن کا ایک نیا جنم ہوسکتا ہے، اور کبھی کبھی "ترجمہ کرنے والا متن میں ایک طرح کا روحانی تناسخ پیدا کرتا ہے، اور وہی متن دوسرے ترجمے یا تشریحی متن کے جسم میں زندہ ہو جاتا ہے۔ ترجمہ تشریح کی ہی ایک شکل ہے۔
ترجمے کی بابت بورجیس کی تعریف سامنے آتی ہے، جس کا خیال ہے کہ کوئی بھی ترجمہ "کسی دوسری زبان میں لکھے گئے اصل متن کا ایک اور مسودہ ہے، اور اس معاملے میں ترجمہ تخلیقی سلسلے کی ایک اور کڑی ہے، نہ کسی دوسرے سے کمتر اور نہ ہی معیار میں اعلیٰ بلکہ یہ مسودہ اس سے مختلف ہے۔ " کسی ایک کتاب کے متن پر ایک کے بعد ایک کتاب کا ترجمہ آتا ہے، ان میں سے کوئی بھی یہ دعویٰ کرنے کے قابل نہیں ہوتا ہے کہ یہ آخری ہے، یا یہ کہ یہ ایک بہترین "اوڈیسی" مہم جوئی ہے۔ گوئٹے ترجمے کو تین اقسام میں تقسیم کرتا ہے۔
پہلا: وہ ترجمہ جو قاری کو غیر ملکی ثقافت سے متعارف کرواتا ہے، لفظوں کی منتقلی کے ذریعے ہوتی ہے، جیسے مثال کے طور پر لوتھر کی بائبل کو لیا جاسکتا ہے۔
دوسرا: ترجمہ جو ترجمہ شدہ متن میں اصل متن کے مساوی تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور وہ اصطلاحات اور تصورات تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اصل تصورات اور اصطلاحات کے متوازی ہوں۔
تیسرا: وہ ترجمہ جو پہلے متن کی حقیقی تصویر کو واضح کرنے پر عمل نہ کرتا ہو، اور المترجم اسے اپنے آپ میں آرٹ کا ایک کام بنانا چاہتا ہو جس میں جمالیاتی اور ادبی فوائد ہوں، تاکہ ترجمہ شدہ زبان کا قاری ایک نئے انداز میں لطف اندوز ہوسکے۔
ویسے ترجمہ کئے جانے والے ترجمہ شدہ متن کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ قارئین اسے کبھی بھی غیر جانبدارانہ اور نئے انداز میں پڑھنے سے قاصر رہتے ہیں، جیسے ہی قاری کو معلوم ہوگا کہ یہ کسی نے متن کا ترجمہ کیا ہے، تو وہ اسے اپنے معیارات سے جانچنا شروع کر دیتے ہیں، اس میں مترجم کی صلاحیت کی خصوصیات کو بھی وہ مصنف سے ہی منسوب سمجھتے ہیں۔ جو حقیقتا ایک اچھے ترجمے کے مترجم کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے، کیونکہ اس پورے متن کے ترجمے یا تشریح میں مترجم خود کسی نامعلوم یا چھپے ہوئے مقام پر محسوس ہوتا ہے، اس لیے اس کا نام بھی نہیں لیا جاتا ہے نہ اس کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے اس لئے اکثر مترجم پر الزام ہی رہتا ہے۔