Sunday, 08 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Spinoza Par Char Sadiyon Se Peecha Karta Fatwa

Spinoza Par Char Sadiyon Se Peecha Karta Fatwa

اسپینوزا پر چار صدیوں سے پیچھا کرتا فتوی

قریب 400 برس قبل سے بھی کچھ سال زائد ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں یہودی مذہبی کونسل نے 27 جولائی سنہء 1656 کو ایک مذہبی فتویٰ جاری کیا تھا، جس میں اسپینوزا کو بدعتی، کافر، اور فرقے اور مذہب کے عقیدے سے الگ ہوجانے کے بنیاد پر اس کی واضح مذمت کی گئی تھی۔ اس مذہبی فتویٰ کا لفظی متن کچھ یوں تھا:

"ہمیں کچھ عرصے سے اسپینوزا نامی اس شخص کے خوفناک بدعتی اور بدصورت اعمال کا علم تھا، اور ہم نے اسے اس کے منحرف انداز سے روکنے کی بارہا کوشش کی، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے قوم بنی اسرائیل سے نکال دیں، اور یہ فتویٰ جاری کرکے اس پر مذہبی، ابدی اور مذہبی طور پر لعنت بھیجیں: خدا اس پر رات تاریکیوں کی لعنت کرے، اور دن میں بھی ہمیشہ میشہ کے لئے خدا اس پر لعنت کرے، خدا اس پر قیامت تک لعنت کرے۔

اس وقت یہودی مذہبی کونسل کی اس بیچارے اسپینوزا پر اتنے شدید غصے کی وجہ کیا ہوئی؟

اس نے ایسا کیا غلط کیا تھا؟

اس نے کیا جرم کیا؟

جبکہ خاص طور پر اسپینوزا کے حالات زندگی یہ بتاتے تھے کہ وہ بچپن ہی سے متقی اور پرہیزگار تھا اور یہودی عبادت گاہ میں عبادات میں مستقل شامل ہوتا تھا، بلکہ اس کے والد اسے ربی "مذہبی پیشوا" بننے کے لیے خواب دیکھتے تھے۔

اس وقت اسپینوزا کی یہودی روایتی، بنیاد پرست مذہبیت سے دوری کی وجہ جدید فلسفے میں دلچسپی تھی، خصوصا ڈیکارٹ کا فلسفہ جو ان دنوں بہت مشہور تھا، اور اس کی ایک اور وجہ اس وقت کے روشن خیال لبرل عیسائی حلقوں کے ساتھ اس کا ذہنی اختلاط بھی تھا، جو روایتی پادریوں کے مذہبی عقائد سے دور اور یہ یہودی روایتی مذہبیت سے دور ہوتا محسوس ہوا۔ لہٰذا اس نے اٹھارہ سال کی عمر کے بعد یہودی عبادت گاہ میں جانا بند کر دیا تھا اور جدید نظریات نے اسے روایتی مذہبیت کو ترک کرنے پر آمادہ کر دیا یہی سب کچھ ہم آج کل بھی اپنے عہد میں بہت سے نوجوان افراد کا معاملہ بھی دیکھتے ہیں، جنہوں جدید خیالات، دنیا میں ہوتی تبدیلیوں، غیر ملکی زبانوں اور معاشرت تک رسائی حاصل ہے۔

جیسے آج کل پوری دنیا میں نئی جنریشن کے لئے ماضی کی کئی رسمیں تھکا دینے والی یا ناقابل قبول ہوگئی ہیں، وہ قرونِ وسطیٰ کے گھٹن زدہ ماحول کو قبول نہیں کرنا چاہتے، اسپینوزا کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا۔ عقلی فلسفے نے اسے اک نیا رستہ دکھایا، اور اسے ایک ہی وقت میں روایتی مذہبیت اور پادریوں سے دور کر دیا، لہذا وہ ایمسٹرڈیم میں یہودی عبادت گاہ میں فرائض اور نماز ادا کرنے کے لیے نہیں گیا، اس کی اس بدلتے حالات کی تبدیلی میں اس کا دل بھی شامل تھا، اور جدیدیت کا جوہر بھی، اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ملحد یا اپنے مذہب کا انکاری ہوگیا تھا (یہ افواہ اس کے عہد میں معروف رہی تھی) بس اتنا ہوا تھا کہ اب وہ پادریوں یا ربی کی طرف سے عائد کردہ جبر اور پابندیوں کی پابندی نہیں کر سکتا تھا۔

مزید یہ کہ اس کے حلقہ احباب میں وہ آزاد خیال مسیحی جن کے ساتھ اس کی رفاقت یا ان دنوں اچھی دوستی شروع ہوگئی تھی، انہوں نے بھی چرچ میں عیسائی رسومات ادا کرنا ترک کر دیا، اور اسپینوزا کی طرح یہ ماننا شروع کر دیا کہ حقیقی ایمان صرف دوسروں کے ساتھ حسن سلوک اور اقدار کی پیروی میں مضمر ہے۔ انصاف، احسان، دیانت اور ایمانداری، یہ اسپینوزا کی نظر میں مذہب اور یہی مذہب کا جوہر تھا، اسی عہد میں جہاں تک فرقہ وارانہ اور تفرقہ بازی تھی، جس نے اسپینوزا کے دور میں تقریباً ہالینڈ اور پورے یورپ کو تباہ کر دیا تھا، اس کی نظر میں حقیقی معنوں میں مذہب کا دشمن بلکہ عقلی فلسفے اور انسانیت کا دشمن بھی تھا۔

مذہب اور فرقہ واریت اصل میں دو بالکل مختلف چیزیں ہیں، اور یہ بات بنیاد پرست اور عام لوگ عموماََنہیں سمجھتے، اسی لیے اسپینوزا یہودی عبادت گاہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا، اور بڑے ربیوں کے خلاف نافرمانی کا اعلان کیا اور یہی وجہ ہوئی کہ انہوں نے اس کے خلاف مذہبی فتویٰ میں اسے کافر اور بدعتی قرار دیا تھا۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہ بات سترہویں صدی میں ہوئی تھی جب فرقہ واریت ایک ایسا افق تھا جس کو پوری طرح سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا، مسئلہ یہ ہے کہ یہ فتویٰ تاریخ کی کتابوں میں آج بھی موجود ہے۔ یہودیوں کی مذہبیت میں اس فتویٰ کو اسپینوزا کے خلاف آج تک ختم نہیں کیا گیا، یعنی اس کے اجراء کے تقریباً چار صدیوں بعد، جب ڈیوڈ بین گوریون نے سنہء 1953 میں اسے ہٹانے اور اسپینوزا کو انسانی تاریخ میں ایک عظیم یہودی ذہن کے طور پر اس کی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کی، تو اسرائیل کے ربیوں نے اس کی کوششوں کو صاف صاف مسترد کر دیا۔ بلکہ اسی عہد کے کئی موروف یہودی فلسفیوں اور دانشوروں نے بھی اس کی ساکھ بحال کرنے سے انکار کر دیا۔

اس کی ایک مثال مشہور یہودی فلسفی ایمائل لیوناس ہے، جو متعدد علمی فلسفے کے میدان میں کئی کتب کے مصنف رہے، اس نے بین گوریون سے کہا کہ " یہ آدمی (اسپینوزا) یہودیوں کا دشمن ہے، چاہے وہ پردادا کے ذریعے سے ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنے لوگوں اور اپنی قوم کا غدار ہے، اس نے یہودیت کو اپنے اصلی دشمن یعنی عیسائیت کے تابع کر رکھا تھا۔

اسی ضمن میں دوسری کوشش سنہء 2012 میں کی گئی تھی، یعنی چند سال پہلے، اسپینوزا کے خلاف کفر کا فتویٰ ختم کرنے کے لیے یہودی برادری کے کچھ عقلمند افراد ایمسٹرڈیم شہر میں جمع ہوئے اور انہوں نے باضابطہ طور پر اس فتوے کو ختم کرنے کے لیے کہا کہ، یہ کتنے شرم کی بات ہے! اس بات کو تقریباً چار سو سال گزر چکے ہیں کیا اس لعنت کو اسپینوزا سے ہٹانے کا وقت نہیں آیا؟ تو یہودیت کے کئی زعماء ربیوں نے ہالینڈ میں اس موضوع پر ملاقات کی، اور پورے ایک سال اس معاملے پر مشورہ کیا اور نتیجہ کیا نکلا؟ اس معاملے کو دوٹوک رد کردیا گیا، ان سب کا مشترکہ موقف یہ تھا کہ: نہیں، ہم اسپینوزا پر سے یہ فتویٰ ختم نہیں کرسکتے، اور نہ ہی ہم اسے حقیقی یہودی نہیں مان سکتے۔

اس لیے کہ وہ ایک فاسق، بدعتی، بدعقیدہ اور مذہب کے خلاف مستقل کفر پر تھا، ان کے نزدیک اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ اس (اسپینوزا) نے ذاتی طور پر اپنے وقت کے مذہبی حکام سے اپنے خلاف فتویٰ ختم کرنے کے لئے خود کچھ نہیں کہا تھا، اور نہ ہی اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے کوئی کوشش کی تھی، بلکہ اس نے اس معاملے کی بالکل بھی پرواہ نہیں کی، اور اپنے کیے پر توبہ بھی نہیں کی، اس نے عبادت گاہ سے معافی بھی نہیں مانگی، اس لئے ہو سکتا ہے کہ اسپینوزا نے اس تکفیری فتوے کو اپنے لیے فخر کا ذریعہ سمجھا ہو، اس لیے ہم اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اگر ہم اس سے تکفیر_ی فتویٰ ختم کرلیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اس کی بدعت اور دین کے عقائد سے منافرت کے اس کے موقف پر متفق ہیں۔

اس سارے مسئلے معاملات اور حالات کو کیسے سمجھا جائے گا جو صدیوں سے بغیر کسی حل کے آج تک یہودیوں کے قبضے میں ہیں، اسپینوزا کے فلسفے کے موقف کی Depth اور حقائق کی کیسے وضاحت ہوسکے گی، اس وقت اسپینوزا کا تعلق پوری تاریخ میں ایک حقیر اور ستائی ہوئی اقلیت سے تھا، اس لیے اس کے لیے واحد حل یہ تھا کہ وہ مکمل طور پر اکثریتی مسیحی معاشرے میں شامل ہو جاتا، جب اس وقت نیدرلینڈز میں روشن خیالی کے نظریات تیزی سے پھیل رہے تھے، یا وہ عقلی فلسفے کو اپنانا، جو مستقبل کے لیے امید افزا تھا۔ وہ تو تاریخ کی تحریک کی سمت میں آگے بڑھ رہا تھا۔

اسپینوزا کے نزدیک حقیقی مذہبیت یہ تھی کہ خدا سے (بغیر کسی فرقہ وارانہ تحریک یا اندھے جنون کے) فکری، فلسفیانہ اور عقلی طور پر محبت کی جائے، سچی مذہبیت یہ ہے کہ نیکی، دیانت، عدل اور خیرات پر عمل کیا جائے، اس معاملے میں کوئی وہم نہیں ہے کہ انسان فتنوں، خواہشات اور انحرافات کے سامنے کمزور ہے۔

ان سب کے علاوہ بھی اسپینوزا پر ایمسٹرڈیم کے ربیوں کے غصے کی وجہ یہ تھی، کہ اس نے کچھ بنیادی یہودی عقائد کی توثیق کی، سب سے نمایاں طور پر یہودی تصویرات کے مطابق "خدا کے چنے ہوئے لوگ" جس کا وہ واضح طور پر رد کرتا تھا، اس خیال کو نہیں مانتا تھا کہ کوئی شخص صرف یہ ودی تو اس کے پاس ایسی کیا مافوق الفطرت خصوصیات ہیں جو صرف یہودی ہونے پر کسی یہودی کو باقی انسانیت سے اعلی بنا دے، اس کے نزدیک یہودی اور غیر یہودی میں کوئی فرق نہیں تھا وہ سب کو برابر انسان ماننے کا قائل تھا۔

اس کے نزدیک یہودیوں میں اچھے اور برے دونوں ہی ہوسکتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے باقی انسانیت میں، اور اس لیے ہم انہیں کس حق سے خدا کے چنے ہوئے لوگ مانتے ہیں؟ یہ ایک بنیادی مذہبی تصور ہے، عقلی اور منطقی تصور نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جب اسپینوزا نے یہ غیر معمولی بات کہی کہ "عبرانی باقی لوگوں سے برتر نہیں تھے، نہ علم میں، نہ دیانت میں، نہ تقویٰ اور پرہیزگاری میں"۔ تب اس جملے نے اس عہد کے ولندیزی ربیوں کو پاگل کردیا تھا۔

اب اسپینوزا کے فہم کو کیسے دیکھا جائے گا؟

اسپینوزا اپنے دور کا ایک جدید، غیر فرقہ وارانہ دانشور، تھا، جس کا تعلق روشن خیالی کے فلسفے اور سچائی سے محبت کرنے والے فرقے کے علاوہ کسی فرقے سے نہیں تھا، اسپینوزا تمام مذہبی اور فرقہ وارانہ پابندیوں سے آزاد یہودی تھا، اس لیے اسے فرقہ وارانہ دانشوروں کے ذریعے نہیں سمجھا جا سکتا جو اپنے فرقے اور مذہبی عقائد کی دیواروں میں بند ہیں۔

اسپینوزا کے اور ان کے درمیان روشنیوں کے سال حائل ہیں، ایک معروف فرانسیسی فلاسفر ایلین بدیو جو کہ فرانسیسی ہے، جو خود کو کہتا ہے کہ "ایک لحاظ سے میں اپنا بھی دشمن ہوں اور فرانس کا بھی دشمن ہوں، حالانکہ میں ہزاروں سالوں سے فرانسیسی ہوں، لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ میں تارکین وطن کے خلاف فرانسیسی نسل پرستی پر سخت تنقید کرتا ہوں اور ایسے ہی وہ لوگ جو اسپینوزا پر الزام لگاتے ہیں، وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس کے تصورات حقیقتا ایسی عالمگیر اقدار ہیں جو فرقہ واریت اور نسل پرستی سے بالکل بالاتر ہیں، کچھ جنونی، بند ذہن کے لوگ آزاد، روشن خیال (یہودی) اسپینوزا کے خیال کو ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن خوش قسمتی سے آج ہماری دنیا میں آزاد، روشن خیال یہودیوں کی ایک بے حساب بڑی تعداد موجود ہے"۔

ان آفاقی روشن خیالی اقدار کا تصور سترہویں صدی میں اسپینوزا نے کیا تھا اور پھر اٹھارویں اور انیسویں صدی کے تمام روشن خیال فلسفی والٹیئر سے کانٹ تک۔ اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فرقہ وارانہ اور نسل پرستی کے خلاف سنہء 1789 کے فرانسیسی انقلاب کے ذریعہ اعلان کردہ انسانی حقوق اور شہری حقوق میں ایک ہی تصور پر قائم تھے۔

نوٹ: باروچ اسپینوزا Baruch Spinoza ایک ڈچ فلسفی جو سترہویں صدی کا ایک معروف ترین فلسفی تھا جس کی پیدائش 24 نومبر سنہء 1632 کو ایمسٹرڈیم میں مارانوس فرقے سے تعلق رکھنے والے یہودی نژاد پرتگالی خاندان میں ہوئی اور یہ 21 فروری

سنہء 1677 کو دی ہیگ میں انتقال کرگیا تھا۔ سنہء 1670 میں اپنی کتاب Treatise on Theology and Politics شائع کرنے کے بعد اس نے علمی حلقوں میں پانی پہچان منوائی، پھر اسپینوزا نے سنہء 1677 میں Ethics کے نام سے کتاب لکھی، جو مغربی فلسفے کی سب سے اہم بااثر کتابوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے، جس میں اس نے فلسفی René Descartes کے تصورات کی مخالفت کی تھی۔

Check Also

Sahib e Aqleem e Adab

By Rehmat Aziz Khan