Souk Al Manakh
سوق المناخہ
نماز مغرب سے کچھ قبل مسجد نبویﷺ میں داخل ہوئے تھے، اہلیہ اور بیٹی کو خواتین کے حصے میں بٹھا کر جب نماز عشاء کے بعد اہلیہ کے پاس پہنچا اور جب مسجد سے نکلنے لگے تو دیکھا بیٹی اپنا ایک جوتا کہیں گراچکی تھی، موسم خاصا ٹھنڈا تھا، پچھلی رات کا آخری حصے میں ہم نے مکہ سے مدینہ کا سفر کیا تھا اس لئے دن بھر آرام ہوچکا تھا اور اب یہاں سے نکل کر ہم نے رہائشی ہوٹل یا قریبی کسی ریستوران کے بجائے یہ طے کیا تھا کہ مدینہ کے کسی اچھے ریستوران جایا جائے خواہ وہ مسجد نبویﷺ سے دور ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اب بیٹی کے ایک جوتا گم ہونے کی صورت ہم نے سب سے پہلے جوتا خریدنے کے لئے سوچا کہ مسجد نبویﷺ باہر نکل کر سب سے پہلے جوتے کا انتظام کیا جائے۔
رب تعالی کے ہر کام میں بندے کے لئے خیر ہی ہوتی ہے کیا پتہ تھا کہ بیٹی کا یہ جوتا گم ہونا، قسمت ہمیں اللہ کے جبیب نبیﷺ کے عہد کے بنائے گئے قدیم بازار میں گھومنے کا موقع دینا چاہتی تھی، ہم نے مسجد نبوی سے واپسی کے لئے گیٹ نمبر ۱۱ کا انتخاب کیا، اور گیٹ نمبر ۱۰، ۱۱ اور ۱۳ کے سامنے ایک اوپن بازار لگا نظر آیا، یہ وہ بازار ہے جہاں نبیﷺ کے قدم مبارک پڑے اور انہوں نے اس کو تاجروں اور دیگر افراد کی جانب سے خرید و فروخت کے لیے ایک آزاد مقام بنا دیا تھا۔
یہ بالکل ایسا بازار جیسے ہمارے ہاں جمعہ یا اتوار بازار لگتے ہیں، وہاں قریب ایسا ہی ماحول تھا، فرق صرف یہ تھا کہ دکانداروں میں کثرت سے مقامی خواتین کے بھی پڑھاتے اور اسٹال تھے، اکثر دکاندار خواتین بھاؤ تاؤ کرتے وقت اردو کی گنتی بھی جانتے تھے، یعنی قیمت بتانے کے لئے اردو میں قیمت بتارہے تھے، یہاں مختلف اشیاء اور تحائف روزمرہ معمولات زندگی کی بہت مناسب قیمت میں مل رہی تھیں، ہر طرح کی اشیاء تقریبا اس بازار میں دستیاب ہیں۔ ہم نے وہاں سے بیٹی کے لئے جوتے لئے، اور ریستوران کی طرف چل دئیے۔
اس بازار کی تاریخ کے بارے میں معلومات کی تو معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے مغرب میں واقع اس بازار کا نام "سوق المناخہ" ہے، لُغوی طور پر "سوق" کا معنی بازار ہے اور "المناخہ" سے مراد وہ مقام ہے جہاں پرانے زمانے میں تجارتی قافلے جمع ہوا کرتے تھے۔ ماضی میں اسے "سوق النبیﷺ" بھی کہا جاتا رہا ہے، اس اولین اسلامی بازار کا نام رسول الله ﷺ نے "المناخہ" رکھا تھا۔ تاریخی طور پر یہ وہ مقام ہے جس کو نبویﷺ نے اونٹوں پر مشتمل تجارتی قافلوں کے پڑاؤ کے لیے مخصوص کیا تھا۔
ہجرت کے بعد پہلے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سوق بنی قیقاع میں تجارت کرتے تھے جو کہ یہودیوں کا اس وقت سب سے بڑا بازار تھا۔ نبی ﷺ نے مسلمانوں کے لیے اپنا الگ بازار بنانے کا حکم دیا اور یہ جگہ جو کہ بنی سعدہ اور مسجد نبوی شریف کے درمیان تھی اس کام کے لیے چنی گئی جگہ کی حدیں جنوب مسجد غمامہ تک تھیں ۔ اب یہ جگہ مسجد شریف کی غربی جانب عبدالعزیز لائبریری سے لیکر مسجد نبویﷺ کے جنگلے کے درمیان ہے۔ اسی جگہ کے نیچے انڈر پارکنگ ہے اور گاڑیوں کے جانے اور نکلنے کا راستہ بھی ہے۔ اوپر کچھ حصے میں اسماء اللہ الحسنی کی نمایش کے لیے عمارات تعمیر کی گئی ہیں ۔
یہاں یہودی اپنے معیارات کے مطابق لین دین کرتے تھے۔ اس وقت ضرورت محسوس کی گئی کہ مسلمانوں کا بھی کوئی ایسا بازار یا تجارتی مرکز ہو جہاں نہ صرف مسلمان خرید و فرخت کر سکیں بلکہ گزرتے ہوے تجارتی قافلے بھی یہاں خیمہ زن ہوں اور مسلمانوں کو بین الاقوامی تجارت کرنے کا موقع بھی ملے اور یہاں جو بھی تجارت ہو وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہو۔ لہذا نبی ﷺ نے اس مقام کو چنا، جو آج بھی مسجد غمامہ سے متصل ہے اور یوں نہ صرف اس مقام کو اسلام کی پہلی تجارت گاہ ہونے کا شرف حاصل ہوا بلکہ طویل عرصے تک مدینہ المنوره کی سب سے بڑی بین الاقوامی منڈی ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا، اس کے بعد صدیوں تک مدینہ منورہ کی سب سے بڑی منڈی رہی۔
کچھ دہائیوں سے اس بازار کو مدینہ منورہ کے موجودہ جدید بازاروں کے مقابل زیادہ پذیرائی حاصل نہیں رہی تھی، اور یہ بازار محض ایک یادگار کے طور پر رہ گیا تھا اور وہ بھی ان لوگوں کے لیے جو اس کے بارے میں کچھ جانتے ہوں ورنہ تو یہ مسجد نبویﷺ سے اسقدر قریب ہونے کے باوجود تقریبا یہ بازار گمنام ہو کر ہی رہ گیا تھا، مگر موجودہ حکمران شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی خصوصی ہدایت پر اسے دوبارہ کھولا گیا ہے، قدیم آثار اور بازاروں کو پھر سے زندہ کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے مدینہ منورہ میں اسلامی اور نبویﷺ کے ورثے پر توجہ کے سلسلے میں "المناخہ بازار" کا بھی احیاء عمل میں لایا گیا ہے۔"المناخہ بازار" کو دوبارہ بسانے کا اقدام موجودہ سعودی حکمران شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی خصوصی ہدایت پر کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد امت کے ورثے اور نبویﷺ کی میراث کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مدینہ منورہ کے لوگوں میں سے پھیری اور پتھارے لگانے والے ایک ہزار افراد کو جگہ فراہم کی گئی۔ پچھلے سال ہی اسے دوبارہ آباد کر کے بازار کی شکل میں آباد کیا گیا ہے۔
اس بازار کی شرائط نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق ہی قائم کی گئی ہیں، (حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ارادہ فرمایا کہ مدینہ میں بازار بنادیں، تو بنو قیقاع کے بازار کی طرف تشریف لے گئے پھر بازارِ مدینہ کی جگہ پر واپس آئے اور پاؤں زمین پر مارتے ہوئے فرمایا: یہ تمہارا بازار ہوگا تنگ نہیں ہوگا اور نہ ہی اس میں سے ٹیکس لیا جائے گا) "مال بیچنے والا اس ٹھکانے پر ٹھہرا نہیں رہ سکتا کیوں کہ نبیﷺ نے بھی اس بازار کی بنیاد اسی طریقے پر رکھی تھی کہ جو آگیا وہ خرید و فروخت کے بعد چلا جائے۔ یہاں کسی کی اجارہ داری یا جگہ استعمال کرنے والے فروخت کنندگان سے کسی قسم کے ٹیکس یا فیس کی وصولی نہیں ہے۔"
"المناخہ" کا بازار پھیری اور پتھارے لگانے والوں کے لئے گنجائش پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کاحل بھی پیش کرتا ہے، وہاں پر تجارت کرنے والے لوگ جو مسجد نبویﷺ کے اطراف اور اس کے صحنوں میں ٹریفک کی آمد و رفت اور لوگوں کی نقل و حرکت میں شدید رکاوٹ اور اژدہام کا سبب بنتے تھے۔ ان سب معاملات کے لئے بہترین انتظامی شکل موجود ہے، بلکہ یہ ایک ایسا انوکھا بازار ہے، رات میں دکاندار یہاں سے اپنا سامان اٹھا کر نہیں لے جاتے، بلکہ یہیں بنا کسی پہرے کے چادر سے ڈھانپ کر اور اس پر پتھر رکھ کر چلے جاتے ہیں۔ میں نے خود وہاں پولیس اور انتظامیہ کو وہاں کے دکانداروں کے ساتھ بہت مہذب رویہ برتتے دیکھا ہے۔ المناخہ بازار، موجودہ زمانے کے لحاظ سے بھی متمدن طور پر تجارتی منڈیوں کے سعودی توسیع کے ویژن سے مطابقت رکھنے والے نئے ویزن کی ہی ایک کڑی ہے۔
نوٹ: ترکوں کے نظام سلطنت کے آخری ایام میں جب حجاز ریلوے مدینہ منورہ تک پہنچ گئی تھی تو مدینہ منورہ میں بہت سے نئے بازار بننے شروع ہو گئے تھے اور ایک جگہ خالی میدان تھا جہاں کھلی منڈی لگا کرتی تھی اور ایام حج میں باہر سے آنے والے حجاج کو اجازت دی جاتی تھی کہ وہ کرائے پر خیمے حاصل کر کے یہاں پر لگالیں ۔ اس وقت یہاں یہاں تقسیم سے قبل ہندوستانی کرنسی یہاں قابل قبول ہوتی تھی، یہاں پر دو (2) آنے روزانہ کی بنیاد پر ایک دن خیمے کا کرایہ ہوا کرتا تھا جس میں چار سے پانچ حجاج کرام گزارہ کر لیا کرتے تھے۔ اس تصویر میں عثمانی سلطنت کے ادوار میں بننے والی یہ عثمانی مکتب کی بلڈنگ ہے جہاں بعد میں سعودی ادوار میں پاکستان ہاؤس کی بلڈنگ بنی۔