Saudi Arab Mein Aam Ki Kasht
سعودی عرب میں آم کی کاشت
جنوبی ایشیا میں آم کے کاشت کی تاریخ قریب چار ہزار برس پرانی ہے، آم پانچویں اور چوتھی صدی قبل مسیح کے درمیان مشرقی ایشیا میں منتقل ہوا، پھر دسویں صدی عیسوی تک مشرقی افریقہ میں آم کی کاشت شروع ہو چکی تھی۔ چودہویں صدی میں رہنے والے مراکشی سیاح ابن بطوطہ نے اپنی یادداشتوں میں آموں کا ذکر کیا ہے، اس کے بعد میں آم کی کاشت برازیل، برمودا، میکسیکو اور ویسٹ انڈیز تک پھیل گئی۔
برطانوی کالونیزم سے پہلے سنہء 1947 تک بھی یہ تمام خطے کا پسندیدہ پھل تھا مگر آج بھی آم ہندوستان اور پاکستان کا قومی پھل ہے اور آم کا درخت بنگلہ دیش کا قومی درخت ہے، عرب میں آم سب سے پہلے مصر میں پہنچا، جس کے متعلق دو روایات معروف ہیں، اول یہ کہ ہندوستانی سفراء کے ذریعے پہنچا دوئم ترک گورنر محمد علی پاشا کے توسط سے پہنچا، خیر یہ سعودی عرب بھی پہنچ گیا، جس کا زیادہ تذکرہ حجاج کے ذریعے پہنچنے کا ہے، مگر سعودی عرب میں اس کی پسندیدگی خاصی مقبول رہی، پیٹرول نکلنے کے بعد۔ سعودی عرب نے خصوصاََ آم کو دنیا بھر سے منگوانا شروع کر دیا تھا۔
آج ہم بحیثیت پاکستان آموں کی کاشت اور ذائقے پر فخر ہی کرتے رہ گئے ہیں مگر سعودی عرب کی وزارت ماحولیات، پانی اور زراعت نے انکشاف کیا کہ سعودی عرب میں آم کی فصل کی خود کفالت کی شرح اس وقت 60 فیصد سے زائد ہوگئی ہے۔ یعنی سعودی عرب میں سالانہ 88 سے 6 ہزار ٹن سے زیادہ آم پیدا ہو رہا ہے۔ جہاں اس کی کاشت 6880 ایکڑ رقبے پر کی جارہی ہے۔ آم سعودی عرب میں اس وقت اعلیٰ اقتصادی پیداوار کے ساتھ ایک بہترین اور نفع بخش فصل ہے۔ اس کی کاشت کئی علاقوں میں کی جارہی ہے، خاص طور پر جازان میں صبیا، ابو عریش، الدرب، صامطہ اور بیش۔
مکہ مکرمہ کے علاقے القنفودہ، اللیث اور ادھم، المخواہ، قلو، الباحہ، تبوک کے ساحلی علاقوں میں عسیر، نجران، اور مدینہ منورہ اور ضلع شرقی کے کئی علاقوں میں بھی اس کی کاشت کی جارہی ہے۔ آم کے لیے ہلکی پیلی زمین، اچھی نکاسی، معتدل تیزابیت اور زرخیز زمینیں آم کی کاشت کے لیے موزوں جگہ ہوتی ہے، اس پھل کے لیے نسبتاً زیادہ درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔ آم کے درخت کی پیداوار 4 سے 5 سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے اور درخت کے 15 سال کی عمر تک پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر درخت کی دیکھ بھال جاری رکھی جائے تو اس طرح وہ معاشی پیداوار کے آغاز عمر بھر پیداوار جاری رکھ سکتا ہے۔
سعودی عرب میں آم کی پسندیدگی ہمیشہ رہی، مگر سعودی عرب سے پہلے مصر یمن وغیرہ میں اس کی کاشت شروع ہو چکی تھی، سعودی عرب میں آج تو آم کی کاشت تیزی سے بڑھ رہی ہے، مگر آج سے قریب نصف صدی قبل سعودی عرب میں آم کے درختوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ سعودی عرب میں سب سے پہلے جازان میں آج سے قریب 50 برس قبل آم کا ایک پودا لگایا گیا جو آج سعودی عرب میں آم کا سب سے پرانا درخت کہلاتا ہے۔
یہ ریاستی سطح پر سعودی زرعی تحقیقی مرکز کے انی تجربات کی کامیابی اور پھر جازان کے علاقے میں آم کی کاشت کی کامیابی اور پھیلاؤ کی بنیاد تھا، یہ درخت نومبر سنہء 1972 میں لگایا گیا تھا، اس وقت اس کی لمبائی تقریباً 30 میٹر ہے، جازان کے علاقے میں وزارت ماحولیات، پانی اور زراعت کے زرعی تحقیقی مرکز کی جانب سے اعلیٰ اقتصادی منافع کے ساتھ زرعی فصلوں کی فراہمی کی کوششوں کا پہلا قدم بنا جس سے مقامی کاشتکاروں کے لیے معاشی امکانات میں اضافہ ہوا اور زرعی مصنوعات کا ایک نیا دروازہ کھلا۔
سعودی تحقیقی مرکز نے سنہء 192 تا سنہء 1984 کے دوران پوری دنیا کے بہترین آم کی اقسام منگوائی جن میں فلوریڈا، ہندوستان، مصر اور آسٹریلیا سے 20 سے زائد اقسام کو سعودی عرب کی سر زمین پر کاشت کاری کے لئے آزمایا گیا۔ ان اقسام کی تحقیق پر کئی سال مطالعہ کیا تھا، اس وقت سعودی زرعی تحقیقاتی ٹیم کے مطالعے سے ثابت ہوا تھا کہ آموں کی کاشت کے لئے جازان کا خطہ ماحولیات کے لحاظ سے سب سے موزوں ہے۔
آج جب سعودی عرب کے علاقے جازان میں آم کی کاشت پھیل چکی تھی ریسرچ اداروں نے متعدد ممالک سے نئی آموں کی اقسام متعارف کروا کر اپنے زرعی تجربات کو جاری رکھا۔ آج سعودی عرب اس خطے میں آم کی 60 سے زائد اقسام کاشت کررہا ہے۔ جن میں تومی اتکینز، کیت، کینت، الفونسو، سکاری، الزبدا، الھندی، الجلن، لنگڑا، الجولی، سنتیشن، فجر کلاند، سمکہ، عویس، تیمور، نومی، ویلنسیا، تھائی لینڈی، بریو، سوڈانی اور زبدۃ جیسی اقسام شامل ہیں۔
سعودی عرب میں آم کی پیداوار کا سیزن اپریل سے اگست تک ہوتا ہے۔ اس وقت بازاروں میں سعودی آم بآسانی دستیاب ہے، جبکہ ہم سو برسوں سے زائد تاریخ رکھنے کے باوجود اس وقت آم کی کاشت کو جدید تکنیک کے اعتبار سے طویل المدتی کااشت کے قابل نہیں کر سکے، آم جیسے موسمی پھلوں کی پیداوار سے سعودی عرب کو معاشی فائدہ ہو رہا ہے، صرف سنہء 2005 میں سعودی عرب میں اڑھائی لاکھ آم کے درخت تھے جن سے آم کی سالانہ پیداوار 18 ہزار ٹن تک ہوتی تھی۔ 2022 میں آم کے درختوں کی تعداد 10 لاکھ تک پہنچ گئی جن سے آم کی پیداوار 65 ہزار ٹن ہوگئی۔
سعودی موجود ریاستی پالیسی کے تحت ایک ادارہ سنہء 2019 میں سسٹین ایبل ایگریکلچر رورل ڈیویلپمنٹ پروگرام، کے تحت بنایا گیا جس کے بعد مملکت زرعی شعبے میں قابل ذکر بہتری آئی ہے۔ یہ پروگرام صرف مقامی پھلوں اور سبزیوں کے علاوہ، مچھلی، گوشت ڈیری، لائیوسٹاک اور عربی کافی کی پیداوار اور مارکیٹنگ میں بھی خاطر خواہ اضافہ کررہا ہے۔ سعودی وزارت زراعت پائیدار دیہی ترقی کے پروگرام "ریف" کے ذریعے آم کی فصل کی پیداواری کارکردگی کو بڑھانے، خوراک کی حفاظت کے حصول، وزارت کی حکمت عملیوں اور منصوبوں کے مطابق اس کی کاشت کی شرح کو بڑھانے کے لیے کام کر رہی ہے تاکہ سعودی وژن 2030 کے اہداف کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔
سعودی عرب کے بازاروں میں اس موسم میں انڈیا کا آم تو پھر بھی نظر آ جاتا ہے، مگر اس کے بعد مصری اور یمنی آم بھی واقعی لاجواب ہیں، اور اسوقت بازار میں موجود ہیں جبکہ پاکستانی آم ابھی پاکستان کے بازار میں بھی نہیں پہنچا، ہمیں یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ ہم نے اپنے کاشتکاری کے مستقبل کا کیا کرنا ہے، جہاں جاپان و انڈیا جیسے ممالک میں کئی آم کی مشہور اقسام اتنی لذیذ اور اعلیٰ ہیں کہ جن کی قیمت لاکھوں روپے کلو میں ہے، وہاں پوری دنیا آم کو بہتر ذائقے اور پیداوار کو بڑھا رہی ہے۔
ریاستی سطح پر آم کی کاشت کے علاقوں میں میلے لگتے ہیں، آم سے بننے والی مقامی مصنوعات کو ریاستی مراعات میں فروغ دیا جاتا ہے، لیکن ہماری آم کی پروڈکشن اور کوالٹی دنیا بھر میں دن بدن کمزور ہو رہی ہے۔ جو لوگ آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی آم جیسا ذائقہ کہیں نہیں ہے تو جان لیں جاپان اور انڈیا کئی اقسام بہت اعلیٰ پیدا کر رہا ہے، حتیٰ کہ ذائقے میں یمن کا تیمور اور مصری آم بھی پاکستانی آموں کے مقابلے پر ہے۔