Qissa Goi Aik Jaiza
قصہ گوئی اک جائزہ
بچپن میں جس کتاب نے مجھے چند سال تک اپنے سحر میں رکھا وہ داستان امیر حمزہ تھی، جسے شائد کئی رائٹرز نے بعد میں اصل مصنف کے بھی لکھا تھا میں نے وہ تمام نسخے اپنی جیب خرچ سے بہت مشکل سے خریدے تھے، ان کو بیسیوں بار پڑھا تھا، ایسے ہی اہلیہ بتاتی ہیں کہ بچپن میں ان کے ابو اسے ہر روز راجو کی کہانی سناتے تھے، ہر روز راجو ایک نئی دنیا میں جاتا تھا، راجو کی کہانی سننے کے لئے اسے ہر روز رات کا انتظار رہتا تھا۔
اس کے ابو ہر روز اسے راجو کا ایک نیا کارنامہ سناتے تھے اور وہ کہانیاں وہ آج تک نہیں بھول سکی، پوری دنیا لوک ادب، قصوں، اور کہانیوں سے بھری ہوئی ہے اور تقریباً یہ قصے ایک جیسے ہوسکتے ہیں، فرق صرف زبان کا ہوتا ہے، بچپن میں ہی ایسی کہانیاں اپنے بڑوں سے سنتے تھے جن میں جنوں، پریوں، اور بادشاہوں کی وہ کہانیاں، جانوروں، پرندوں، شہزادوں، غریب چرواہوں کی کہانیاں ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتی تھیں، جو سب ہوتا تو خیالی تھا مگر کہانی سنانے والے کے اندازِ بیاں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ سب کچھ حقیقی دنیا کا حصہ ہے۔
پچھلی پوسٹ پر میں نے مذہبی سبق آموز کہانیوں اور عرب قصہ گوئی کو ہمارے ہاں کے خطیبوں اور موٹیویشنل اسپیکرز سے ربط کیا تھا کہ وہ قصے کہانیوں کو حقائق اور اساطیر کا درجہ دے دیتے ہیں، اس سے ان کے مفادات جڑے ہوتے ہیں، ورنہ لوک داستانوں یا قصہ گوئی صرف عرب تک محدود یا اس کی ابتداء وہاں سے نہیں، بلکہ اس کا سلسلہ تو زمانہ قبل از مسیح تک ملتا ہے، جب ان قصوں کا اظہار دیواروں پر تصویروں کے ذریعے ملتا تھا، اُن پینٹنگز سے ہی رسمِ تحریر ایجاد ہوا تھا جسے Cuneiform کا نام دیا گیا۔ پینٹنگز کے بعد اِنسانوں نے پتلیوں کے ذریعے کہانیاں سُنانی شروع کر دیں۔ پتلیوں کے تماشے کے ساتھ اُوٹ پٹانگ کہانیاں کبھی گا کر اور کبھی لہک لہک کر نثری انداز میں سُنائی جاتی تھیں۔
ابتدائی ادوار میں جب انسان کو لکھنا بھی نہیں آتا تھا تو یہ داستانیں سینہ بہ سینہ چلتی تھیں۔ پھر انھیں مرتب بھی کیا گیا لیکن یہ زبانی بیانیہ ہمیشہ نہ صرف یہ کہ زندہ رہا بلکہ پروان بھی چڑھتا رہا۔ داستانوں میں ہومر کی ایلیڈ Iliad اور اوڈیسی Odyssey کو بہت شہرت ملی اور اسکا زمانہ ساتویں صدی قبل مسیح کا کہا جاتا ہے۔ سارے یونانی کلچر اور ادب کی اساس یہی دو داستانیں تھیں۔ ایلیڈ ایک ایسا رزمیہ ہے جس نے سکندر اعظم کو جیت کے جذبے سے سرشار کر دیا تھا، اس نے ٹرائے کی جنگ سے یونانی بادشاہوں کی یک جہتی اور جنگی حکمت عملی سیکھی اور پھر دنیا پر فتح حاصل کی۔
ویسے تو قصہ گوئی کی اک بڑی صنف دنیا کے ہر جغرافیے میں موجود ہے، دنیا کے ہر خطے شیر و ملک کی اپنی روایتی علاقائی کہانیاں ہوتی ہیں، پاکستان میں بھی ہر صوبے اور کلچر میں ایسے قصہ گوئی کی ایک مکمل روایت موجود رہی ہے، بغداد کی عباسیہ خاندان کے مشہور بادشاہ ہارون رشید کی ملکہ زبیدہ کو داستان سننے کا بڑا شوق تھا اور اس کے دربار میں داستان گووں کو بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ الف لیلیٰ قصے کی ایک مشہور کتاب کا نام ہے اس کتاب کی کل داستانیں سمرقند کی شہزادی نے اپنی بہن سے جس کا نام دنیا تھا ایک ہزار ایک راتوں میں بیان کی تھیں۔ بعد میں یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ اس کا انگریزی، فرانسیسی، عربی فارسی وغیرہ بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوگی۔
برصغیر میں قدیم ہندوستان میں دو رزمیہ داستانوں کو قبولیت ملی جن میں رامائن اور مہابھارت جو ہندوستانی تہذیب اور روایت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ قصوں اور کہانیوں میں" پنج تنتر " کو اس قدر شہرت ملی کہ دنیا کی کئی دیگر زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔ ہندوستان میں ہی جب "داستان امیر حمزہ" چھپی تو اس کی چھیالیس 46 جلدیں اور ہر جلد قریب ہزار صفحات پر مشتمل تھی، جو "طلسم ہوشربا" کے نام سے چھپی تھیں، اس کی مقبولیت کو دیکھ کر بابو دیو کی نندن کھتری نے اسے ہندی میں"چندر کانتا" کے نام سے ہندی میں منتقل کر دیا اور وہ ایک شاہکار بن گئی جس میں انہوں نے "امیر حمزہ "کو بدل کر "بھوت ناتھ "کر دیا تھا، حیدر بخش حیدری نے آرائش محفل اور طوطا کہانی لکھی۔
خلیل خان اشک نے "داستان امیر حمزہ"، مظہر علی ولا نے "ہفت گلشن" لکھی۔ ان کے علاوہ بھی بہت سی داستانیں لکھی گئی مگر ان سب داستانوں میں اپنے منفرد انداز بیان اور سلیس اور برجستہ زبان کے سبب باغ و بہار کو سب سے زیادہ مقبولیت کا درجہ حاصل ہے، باغ و بہار میں دہلی کی معاشرت بیان ہوئی ہے اس کے مقابلے میں رجب علی بیگ سرور لکھنوی نے "فسانہ عجائب" لکھی۔ جو لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار بنی، بڑے بڑے شہروں میں داستان سننے سنانے کے لیے باقاعدہ جگہیں اور وقت مقرر ہوا کرتے تھے جہاں لوگ آتے اور داستان سنتے تھے کچھ قدیم شہروں خصوصا حیدرآباد دکن، دلی، لکھنؤ اور لاہور وغیرہ میں ایسی جگہوں کی نشاندہی آج بھی باآسانی کی جا سکتی ہے۔ انشاء اللہ خان انشاء کا یہ شعر اسی ضمن میں ہے
سنایا رات کو قصہ جو ہیر رانجھے کا
تو اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
پانچ دریاؤں کی سرزمین پنجاب بھی قصہ گوئی میں کم نہیں رہا، پنجابی زبان کی شاعری میں داستان کو خاص مقام حاصل ہے۔ جن شعرا نے پنجابی لوک داستان کو منظوم کیا، ان وارث شاہ کا قصہ، ہیر رانجھا ہاشم شاہ کا قصہ سسی پنوں، حافظ حصے دار کا قصہ مرزا صاحباں، فضل شاہ کا قصہ اور سوہنی ماہی وال وغیرہ مشہور ہیں۔ ان قصوں میں اعلی درجے کی شاعری کے علاوہ اس وقت کی پنجاب کی تاریخ نیز معاشی پنجابی اور سید زندگی کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ زبان میں ناول نگاری پنجابی ناول نگاروں میں دبیرسنگھ اور بخش منہاس کے ناول بہت مشہور رہے ہیں۔ آج بھی لاہور کے کسی پارک میں لوگ جمع ہو کر قصہ گوئی کرتے ہیں۔ خیبر پختون خواہ پشاور ایک طویل عرصے تک قصہ خوانی کا مرکز رہا ہے۔ پشاور کے وسط میں واقع مشہور قصہ خوانی بازار ہے، جہاں داستان گوئی کی ایک قدیم روایت موجود ہے۔ اسی نسبت سے اس کا نام قصہ خوانی بازار ہوا۔
اسی طرح چین میں ادب کی ابتدا میں شعر کہنے کا کام صرف شاعروں تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ اعلیٰ عہدوں کے افراد کو بھیشعر گوئی کا امتحان دینا ہوتا تھا، اور تمام بڑے حکومتی عہدیداروں کے لیے شعر کہنے اور شعر فہمی کی صلاحیت لازمی تصور کی جاتی تھی۔ کہانیاں، نظمیں یا رزمیہ داستانیں یہ سب انسانی تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ بہشت اور جہنم کا تصور کلی طور پر مذہبی ہے۔ لیکن اطالوی شاعر دانتے نے اسے بہت ہی خوبصورت انداز میں اپنی تصنیف 'ڈیوائن کامیڈی' میں پیش کیا ہے۔
قدیم زمانے میں جاپان میں قصہ گوئی کی روایت موجود تھی مگر ایک عجیب بات تھی کہ جاپان میں خواتین کو ادب پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن کمال دیکھیں کہ دنیا کا سب سے پہلا ناول 'The Tail of Gengi' جاپان میں اس وقت ہی لکھا گیا جب وہاں خواتین پر ادب پڑھنے پر پابندی تھی۔ اس کی ناول نگار مراساکی شیکیبو Murasaki Shikibu ایک خاتون تھیں۔ مراساکی شیکیبو نے اپنے بھائی کو پڑھتے دیکھ کر خود لکھنا سیکھا تھا، پھر اس نے تقریباً ایک ہزار صفحات کا شاہکار ناول لکھا۔ اسے کلاسیکی ادب بنانے کے لیے اس ناول میں 800 کے لگ بھگ نظمیں بھی شامل کیں۔ یہ جاپان کا نہ صرف پہلا ناول بلکہ دنیا میں کسی بھی خاتون کا پہلا ناول مانا جاتا ہے۔