Qabl Az Islam Beti Ki Pedaish
قبل از اسلام بیٹی کی پیدائش
پاکستان میں اکثر منبر رسول سے اسلام میں عورتوں کے حقوق کے ضمن میں ایک بات پیش کی جاتی ہے، اور قبل از اسلام لڑکیوں کے پیدا ہونے پر قتل کئے جانے کو اتنا زیادہ بیان کرکے یہ سمجھاتے ہیں جیسے یہ رسم کوئی عام سی رسم تھی۔ اسلام سے پہلے کے اہل حجاز کا معاشرہ تہذیب و اقدار اور روایات میں اتنا زیادہ بہتر ضرور تھا جتنا کم از کم آج ہمارا معاشرہ اکیسویں صدی میں نہیں ہے۔
خصوصاََ لڑکیوں کے زندہ درگور کئے جانے کو منبر سے واحد عورتوں کے حقوق کے طور پر ایسے بیان کیا جاتا ہے کہ جیسے عرب میں یہ کوئی معمول کا کام تھا، جزائر عرب میں اس رسم کی بابت کئی قبائل جانتے تک نہ تھے، یہ صرف اہل حجاز کے انتہائی محدود سطح پر ایک ہی قبیلے کی رائج رسم تھی، جس کی اس عہد میں ایک تاریخ تھی۔ عربوں میں یہ رسم بالکل عمومی نہیں تھی، بلکہ ایک عرب میں کئی قبائل کی مذہبی تشریحات میں تو فرشتوں کو خدا کی بیٹیوں سے تعبیر کیا جاتا تھا۔
صرف اہل حجاز میں سب سے پہلے جس نے اس غلط رسم کی بنیاد ڈالی تھی وہ قبیلہ "بنو تمیم" تھا۔ اس کا آغاز قبیلہ بنو تمیم سے تب شروع ہوا تھا، جب بنو تمیم نے نعمان بن منذر کو ٹیکس دینے سے انکار کر دیا تھا، جس کی وجہ سے ان کے درمیان جنگ ہوئی، اور اس جنگ میں بہت ساری لڑکیاں اور عورتیں نعمان بن منذر نے قید کر لی، پھر صلح اور اسیروں کے لئے رقم طے ہوئی۔
تو جس وقت بنی تمیم کے لوگ قیدیوں کو چھڑانے کے لئے نعمان کے دربار میں حاضر ہوئے تو اس نے یہ اختیار خود ان عورتوں کو دیدیا کہ چاہیں تو حیرہ میں رہیں اور چاہیں تو بنی تمیم کے ساتھ واپس چلی جائیں۔ اس وقت قیس بن عاصم جو کہ قبیلہ کا سردار تھا اس کی لڑکی بھی قیدیوں کے درمیان تھی اس نے ایک درباری سے شادی کر لی تھی، اور قیس بن عاصم کی بیٹی اس درباری کے ساتھ خوش تھی، لہٰذا اس نے دربار میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اسے اس درباری سے محبت ہوگئی تھی۔
قیس بن عاصم اس بات سے سخت ناراض ہوا اور اس نے اسی وقت عہد کر لیا کہ اس کے بعد وہ اپنی لڑکیوں کو قتل کر ڈالے گا، اور اس نے یہ کام انجام دیا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ رسم انتہائی محدود سطح پر دوسرے قبیلوں میں بھی غیرت کے نام پر ہی پہنچی، اس جرم میں کسی درجے جن قبائل کے نام آتے ہیں ان میں قبیلہ قیس، اسد، ہذیل اور بکر بن وائل شامل تھے۔ چونکہ یہ رسم عام بھی نہیں تھی، اور اخلاقی سطح پر اسے اس وقت بھی شدید ناپسند ہی کیا جاتا تھا۔
حتیٰ کہ کچھ قبائل میں اور اس وقت کی بڑی شخصیات اس کام کی مخالف میں رہے، ان میں سے عبدالمطلب پیغمبر اسلاۖم کے جد تھے جو اس کام کے شدید مخالف تھے، اور کچھ لوگ جیسے زید بن عمرو بن نفیل اور صعصعہ بن ناجیہ، لڑکیوں کو ان کے باپ سے فقر کے خوف سے زندہ درگور کرتے وقت خرید لیتے تھے اور ان کو اپنے پاس رکھتے تھے۔ اور کبھی لڑکیوں کے عوض میں ان کے باپ کو اونٹ دیدیا کرتے تھے۔ اس واقعے کی تصدیق کے لئے ریفرنس موجود ہے۔
(جاحظ، البیان والتبیین، بیروت: داراحیاء التراث العربی، 1968ئ، ج1، ص 128۔ 127؛ عایشہ بنت الشاطی، گزشتہ حوالہ، ص 434۔ 433؛ آلوسی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، ج3، ص 51۔
چونکہ قرآن نے رہنمائی کے لئے اس وقت کی تمام برائیوں کی طرف اشارہ دیا تھا تو ایسے جرائم کو بھی جو چاہے معدوم لیکن ایک قبیح رسم رہے ان کو بھی موضوع بنایا، مگر یہ مطلب نہیں تھا کہ وہاں سب ایسا کرتے تھے، آج بھی جب ہم مہذب کہلاتے ہیں، ہمارے ملکوں میں لوگ بیٹی کی پیدائش کو برا سمجھتے ہیں، مگر آج کے عرب بہرحال بیٹی کی پیدائش کو برا بالکل نہیں سمجھتے۔
قبل از اسلام کی خواتین کی معاشرت کا درست تعارف کبھی بھی ہمارے ہاں نہیں کروایا جاتا، اور ان معدوم جرائم کو جو واقعتاََ قبیح تو تھے مگر ان کی مذمت اسی معاشرت میں بھرپور موجود ہونے کے علاوہ اس کی عملی پریکٹس بھی بہت کم تھی اسے بہت زیادہ بتایا جاتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عرب اپنی بیٹیوں کو گر ایسے ہی زندہ درگور کر دیتے تھے تو اسلام سے پہلے اور بعد میں بھی وہ کیسے پیدا ہو رہی تھیں؟ اور اگر وہ عورتوں کے لیے اس درجہ نفرت رکھتے تھے تو ان کی نظمیں پاکیزگی اور بے تکلفی سے بھری ہوئی کیوں تھیں؟
یقیناََ تمام عرب اس بات کو تسلیم نہیں کرتے بنو تمیم کے علاوہ عربوں میں یہ کچھ واقعات غربت کی وجہ سے بھی ہوئے جب کوئی صرف بیٹی نہیں بلکہ بیٹوں کو بھی مار دیتے تھے اس کی ایک اور وجہ غربت یا اسیری کا خوف بھی تھا۔
اسلام آنے کے بعد بیٹیوں کے زندہ درگور کرنے پر قرآن نے [التکویر: 8، 9] یہ کہا
"اور جب لڑکی سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کس گناہ میں ماری گئی"۔
اسلام میں دوسری خامیوں کے ساتھ {الانعام: 151] (97)} میں دوسری نصیحتوں کے ساتھ اس طرف بھی اشارہ کیا۔
"کہہ دو کہ آؤ میں وہ بات پڑھوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام فرمائی ہیں کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم غربت سے تمہیں اور ان کو رزق دیتے ہیں۔ بے حیائی کے قریب نہ جاؤ خواہ کھلی ہو یا چھپی اور حرام جان کو قتل نہ کرو، اللہ نے حق کے سوا اس کا تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو"۔
مگر بالمجموع قبل از اسلام میں اس بات کو سمجھنے کے لئے یہ واقعہ بہت اہم ہے، جب رسول اللہ ﷺ کو نبوت کے بعد کفار مکہ سے ابوجہل "عمرو بن ہشام بن المغیرہ المخزومی القرشی الکنانی" نے جب آپ رسول اللہ ﷺ کے گھر کا گھیراؤ کر لیا تھا اس وقت ابوجہل کے ساتھ عرب کے مختلف قبیلوں کے بہت سے آدمی تھے جو رسول اللہ ﷺ کو گرفتار کرنا چاہتے تھے لیکن وہ اپنے گھر سے نہیں نکلے، اس لیے وہ ان کے گھر کے سامنے ہی بیٹھے رہے، رات بھر یہاں تک کہ اس گروہ میں سے ایک شخص نے یہ تجویز دی کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں گھس کر اسے گرفتار کر لیا جائے، تب ابوجہل نے جذباتی ہو کر جواب دیا تھا:
أتريد أن تقول العرب عنا أنا تسورنا الحيطان وهتكنا ستر بنات محمد؟
کیا تم چاہتے ہو کہ عرب ہمارے بارے میں کہیں کہ ہم چاروں طرف سے دیواروں میں گھرے ہوئے ہیں اور ہم محمد کی بیٹیوں کے پردے کو پامال کیا گیا ہے؟
یہ دعویٰ کہ زمانہ قبل از اسلام میں عرب عفریت تھے اور ان کی حالت ابتر تھی کہ وہاں بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا ایک عام سی بات تھی تو یہ ایک جھوٹ ہی ہے۔ ورنہ وہاں پر حیات انسانی کیسے قائم رہی، انہوں نے عورتوں سے شادیاں کیسے کیں بلکہ عرب میں اس عہد میں مردوں کے مقابل تعداد میں عورتوں کی کثرت تھی، اور یہ بھی کہنا کہ عورتیں پسماندہ تھیں اور ان کا کوئی کردار نہیں تھا، تو یہ بھی جھوٹ ہے۔
اگر بات ایسی ہی ہوتی تو حضرت خدیجہ کی طرح کوئی عورت رسول اللہ ﷺ سے اپنی مرضی سے شادی نہ کرتی، اس وقت کے عرب سماج میں عورت کی جانب سے نکاح کا پیغام بھیجا جانا اک عام سی بات تھی۔ یعنی زمانہ قبل از اسلام عربوں کا بیٹیوں کو زندہ در گور کرنے کا عمل آج کی ہمارے برصغیری معاشرت میں عملاََ بیٹیوں کو غیرت یا کسی بھی وجہ سے مارنے جانے کے مقابلے میں بھی بہت کم تھا۔