Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Qabal Az Islam Mein Jismani Muhabbat Ke Izhar Ki Shayari Ka Tazkira

Qabal Az Islam Mein Jismani Muhabbat Ke Izhar Ki Shayari Ka Tazkira

قبل از اسلام میں جسمانی محبت کے اظہار کی شاعری کا تذکرہ

پچھلے حصے میں قبل از اسلام شعراء کا صحراء کی راتوں میں خوف سے عورت کے وجود میں پناہ کا تذکرہ تھا، قبل از اسلام عربوں میں عورت کے وجود میں شدید ترین اظہار ان کی جنسی لذتوں کے لیے ان کے اشعار کے بیانیے میں موجود ہونا، ان کے سماجی حالات اور ان کی زندگی کے سخت دباؤ کی وجہ سے ہوتا تھا۔

اس مضمون میں صحراء کی رات کے خوف کا تذکرہ تھا، زمانہ قبل از اسلام کے عرب شعراء کے پاس ان کے زندگی کے اسباب، محرکات اور زندگی کے حالات ہی ایسے رہے تھے کہ جن کی وجہ سے وہ عورتوں میں وہ پناہ اور سکون ڈھونڈتے تھے، جو انہیں اطمینان اور خوشی کا ذریعہ فراہم کرتی تھی، جیسے پیاس میں پانی پیاس کی تکلیف سے بچاتا ہو، تو ان کی محبت، ان کے جذبات کا جھکاؤ عورت کی جانب ہی رہا، ویسے تو یہ جذباتی اظہار صرف تخیلاتی ہی نہیں تھا، بلکہ مختلف عوامل کے ذریعے ان کی وجوہ ملتی ہیں، بشمول غیب کے ساتھ ان کا تعلق (غیب سے مراد اس عہد میں ایسی بہت ساری باتیں الہام سے ہی متصور رہتی تھیں) اور ان ذرائع کی کمی جو ان کی دنیا میں ظلم، لالچ اور بقا کے لیے جدوجہد سے وابستہ تھیں، قبائل کی روایات، رسم و رواج اور اجتماعی قدروں کے نظام اس کی وجوہات میں شامل تھے۔

اس وقت کے عہد میں الہامی عقائد اور مذاہب قبل از اسلام لوگوں کے ذہنوں سے بالکل غائب نہیں تھے، یہودیت، عیسائیت اور خصوصا خطہ حجاز میں دین حنیفیت کا معاملہ موجود تھا، جس نے ان کی زندگیوں کو کچھ روحانی اور ایمانی بنیادوں سے بھرا ہوا تھا، اس لئے اس دور کو فطری اخلاقی زوال کے متوازی دیکھنا بھی درست نہیں ہے، اس کے برعکس اسلام سے پہلے کے لوگوں کے دنیا کے زمینی حقائق کا تجزیہ ان کے رحجانات میں صرف سکون کے لئے "جسمانی تلذذ یا پناہ " کے طور پر آنکھیں بند کرکے ایک رائے نہیں بنائی جاسکتی۔ اسی عہد کے اعتبار سے ان کے مسائل کو سامنے رکھ کر ہی اس کا بہتر اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ، اصولی طور پر بھی دیکھا جائے تو مرد و زن کے بیچ محبت، جسم اور روح کے درمیان مکینکی دوئی کے فریم ورک کے اندر محبت کے بارے میں بات کرنا اس سچائی کی خلاف ہے، جو بہت سی سماجی ضرورتوں اور انسانی فطرت کے ساتھ مسابقت رکھتی ہے، جس کے اندر بہت سے رجحانات اور روئیے متحرک ہوتے ہیں، طرفہ بن العباد کی شاعری میں جنسی محبت میں بھی روح کی گہرائیوں سے پیغامات آتے محسوس ہوتے ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکیزہ محبت (برصغیری محبت کا ورژن) میں بھی محبوب کو گلے لگانے، اس کی جسمانی موجودگی کو چھونے کے احساس کی شدید خواہش ہوتی ہے۔ اگرچہ محبت کی حسی اور روحانی نوعیت کے فرق سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، لیکن ہر فرد کے اعتبار سے ان کیفیتوں کے تناسب میں فرق ہوسکتا ہے نہ کہ قطعی طور پر کوئی حتمیت قائم کی جاسکتی ہے۔ عرب میں ہی افلاطونی فلسفے سے متاثر محبت کے بارے میں صوفیوں کے تصور کو پیش کرنے والے ابن الدباغ القیروانی کہتے ہیں کہ

"یہ درست ہے کہ لذت کا جنون، مختلف روحوں کا تعاقب کرتا ہے، لیکن ان میں سے ہر ایک روح کی لذت کا اپنا تصور ہے، اس کے علاوہ یہ کہ روح اپنے جذبے کے درجے پر پہنچ جاتی ہے۔ دوسرے جب یہ جسمانی خواہشات پر آجائے تو "یہ روحانی لذتوں کی محبت میں بدل جاتی ہے، اور اسے محبت ہو جاتی ہے۔۔

ویسے ہی اگر زمانہ قبل از اسلام کے لوگوں نے بالعموم عورتوں کے جسمانی خطوط، بالوں اور زندگیوں پر خصوصی توجہ دی تو وہیں ہر ہی زمانہ قدیم سے انسانوں کی طرح ایک عورت کے لیے عفت و پرہیزگاری کا علم بلند رکھنے والے شعراء بھی موجود رہے، جن میں عبداللہ بن عجلان، عنترہ بن شداد قابل ذکر ہیں، اور وہ بھی ہیں جنہوں نے محبت میں ہوس یا جسمانی تلذذ کی تلاش یا اس کو انتہا تک پہنچا کر پیش کیا، جن میں امراء القیس، الأعشى اور المنخل اليشكري قابل ذکر ہیں، طرفہ بن العباد کو بھی مکمل طور پر نظر انداز نہیں کرسکتے، جو اپنی پریشانیوں اور خوف کو دور کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں دیکھتا تھا جو اپنے اشعار میں تذکرہ کرتا ہے کہ وہ ایک فربہہ عورت کے ساتھ بارش میں اس عورت میں پناہ لے سکتا تھا۔

امراء القیس کو قبل از اسلام کے شاعروں میں سے سب سے ممتاز مانا جاسکتا ہے جس نے خواتین اور زندگی کو سب سے زیادہ اپنی شاعری میں بیان کیا، اس سچائی سے بھی انحراف نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی شاعری میں ان خصوصیات کی وجوہات میں کچھ بھی تصنع نہیں بلکہ اس کی پرتعیش سماجی حیثیت تھی، جو وہ ایک طاقتور بادشاہ کے بیٹے کے طور پر اس کے لیے ان اسباب کو آسان بناتی تھی، کہ وہ لذت اور اس پر تعیش زندگی کے حصول کے لیے خود کو وقف کرسکنے میں کامیاب رہا۔

اس کی زندگی میں خواتین، مقامات یا اس کا طرز زندگی حتی کہ اس کے والد کے المناک قتل کے بعد آنے والے سخت دور، اپنے والد کے قاتلوں سے بدلہ لینے اور اس بادشاہی کو دوبارہ حاصل کرنے کی اس کی سخت کوششوں نے بھی عورت سے اس کی وابستگی کو کم نہیں کیا، جس میں اس نے زندگی کو اپنے لئے کہیں آسان نہیں دیکھا یا اس رغبت نے بھی اس کی تنہائی کے احساس کو دور کیا۔ ویسے امراء القیس ماضی کی جنت کے کھنڈرات پر اداس کھڑے ہونے کے علاوہ اس جیسے احساسات کی عکاسی نہیں کرتا، لیکن اس کی بے لگام ہوس پرست خواہشات اس کے اشعار کے متن میں ظاہر ہوتی ہیں، امراء القیس کا اپنے اشعار میں بارہا اپنی محبوب عورت سے جن چیزوں کا اظہار نظر آتا ہے، اس میں اسے لالچ دینا، جز وقتی تعلقات بنانا اور اس کے سامنے دوسری عورتوں کے تعلقات کا تذکرہ اور ایک عورت کے بعد دوسری عورت کی طرف اس کا فوری جھکاؤ ملتا ہے۔

وہ اس عہد کی عورت کی اپنے اشعار میں اس کی فطرت کا گہرا تجزیہ پیش کرتا ہے، وہ اپنی مہم جوئی کو بہت سی خواتین سے محبت کرنے والوں کے کانوں تک پہنچانے میں ہچکچاہٹ بھی محسوس نہیں کرتا، ان کے اندر حسد کی آگ بھڑکاتا ہے، اس کے مشہور معلقہ میں اس نے عنیزہ کے ساتھ بھی یہی کیا، جو بمشکل معمولی شکایت بھی ظاہر کررہی تھی۔ جب امراء القیس نے عنیزہ کے اونٹ پر اس کے ساتھ تنگ ہودہ میں جگہ بنا کر بیٹھنے کے لئے اپنا اونٹ قربان کردیا تھا، اور راستے میں وہ اس کے سامنے دوسری عورتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی شیخیاں بگھارتا ہے۔ (اس واقعے کا تذکرہ میرے چار سال پرانے ایک مضمون میں موجود ہے) امراء القیس اپنے معلقہ میں ان اشعار میں عنیزہ سے ان عورتوں سے تعلق کا تذکرہ کررہا ہے۔

وبَيْضَةِ خِدْرٍ لاَ يُرَامُ خِبَاؤُهَا
تَمَتَّعْتُ مِنْ لَهْوٍ بِهَا غَيْرَ مُعْجَلِ

بہت سی (ایسی) دوشیزائیں ہیں، جو پردہ نشین ہیں، جن کے خیموں کے آس پاس، سخت نگرانی کے سبب کوئی جانے کی ہمت نہیں کرسکتا۔ لیکن میں بغیر کسی خوف کے ان کے پاس پہنچ کر، لطف اندوز ہوتا ہوں۔ ان سے گھنٹوں ہنسی دل لگی کرتا ہوں۔

تَجَاوَزْتُ أحْرَاساً إِلَيْهَا وَمَعْشَراً
عَلَّي حِرَاصاً لَوْ يُسِرُّوْنَ مَقْتَلِي

ایسے نگہبانوں اور قبیلہ سے بچ کر محبوبہ تک جا پہنچا جو میرے جب کہ اس کے محافظ جو میرے قتل کے لیے بے چین تھے اس کی حفاظت کر رہے تھے اور خواہش رکھتے تھے کہ کاش وہ پوشیدہ طور پر مجھے قتل کر ڈالیں۔

إِذَا مَا الثُّرَيَّا فِي السَّمَاءِ تَعَرَّضَتْ
تَعَرُّضَ أَثْنَاءَ الوِشَاحِ المُفَصَّلِ

میں محبوبہ سے ملنے کے لیے اس وقت آگے بڑھا جس وقت آسمان پر کہکشاں کا کنارہ اس طرح چمک رہا تھا جس طرح ہار میں موتیوں کے دانے چمکتے ہیں۔ یعنی میں محبوبہ کے پاس اس وقت پہنچا جس وقت کہکشاں کے ستارے علیحدہ علیحدہ چمک رہے تھے۔

فَجِئْتُ وَقَدْ نَضَّتْ لِنَوْمٍ ثِيَابَهَا
لَدَى السِّتْرِ إلاَّ لِبْسَةَ المُتَفَضِّلِ

میں اس کے پاس ایسے وقت میں پہنچا، جبکہ وہ چلمن کے پاس جامہء خواب کے علاوہ سونے کے لیے (سب) کپڑے نکال چکی تھی۔

فَقَالتْ: يَمِيْنَ اللهِ مَا لَكَ حِيْلَةٌ
وَمَا إِنْ أَرَى عَنْكَ الغَوَايَةَ تَنْجَلِي

ان حالات میں، اپنی محبوبہ کے پاس اس وقت پہنچا، جب اس نے اپنے کپڑے اتار ڈالے تھے۔ اور شب خوابی کے لباس میں، پردے کے پاس کھڑی، میرا انتظار کر رہی تھی۔ (لباس شب خوابی اس لیے پہنا تھا کہ گھر کے لوگ سمجھ لیں کہ وہ سونے جا رہی ہے)۔

خَرَجْتُ بِهَا أَمْشِي تَجُرُّ وَرَاءَنَا
عَلَى أَثَرَيْنا ذَيْلَ مِرْطٍ مُرَحَّلِ

میں اس کو پردے سے باہر لایا۔ اور ساتھ لے کر چلنے لگا، وہ ہم دونوں کے نشانات قدم مٹانے کے لیے، اپنی منقش چادر کا دامن زمین پر گھسیٹتی ہوئی چل رہی تھی، تاکہ قدموں کے نشانوں سے کوئی ہمارا سراغ نہ لگا سکے گا۔

امراء القیس کا عورتوں سے تعلقات کا معاملہ صرف دو یا تین عورتوں تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس کے کارنامے اس ضمن میں اس تعداد سے کہیں زیادہ تھے، جو اس کی سوانح اور شاعری میں ملتے ہیں۔ عرب مؤرخین نے امراء القیس کے تعلقات میں یا اشعار میں ملنے والی ان خواتین کا سراغ لگانے کا بھی کام کیا، جن کے نام ان کے مجموعوں میں ملتے ہیں، جن میں ہند، سلیمہ، ماویہ، ھز، فرتنا، فاطمہ، ہریرہ، لیلیٰ، سمیہ، جبیرہ، سلمیٰ، ام الحارث اور ام الرباب کے نام ملتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ بہت سارے قبل از اسلام شاعروں نے معاشرتی اور اخلاقی اصولوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض نے شادی شدہ عورتوں کو دوسری عورتوں پر ترجیح کیوں دی۔ گویا وہ حرام رشتے میں ایک اضافی لذت پا رہے ہیں، جو آسان اور جائز لذتوں کے برابر نہیں تھی۔

مروجہ اقدار اور رسم و رواج کی خلاف ورزی کا یہ رجحان صرف امراء القیس تک محدود نہیں تھا، بلکہ العیشہ نے اپنی بہت سی نظموں میں بھی اس کا اظہار کیا ہے، اور ان میں سے ایک میں وہ اپنے محبوبہ تک رسائی کے لیے جستجو کا تذکرہ کرتا ہے۔ جس میں وہ شادی شدہ محبوبہ کے غیرت مند شوہر کی طرف سے نگرانی کا احساس ہوتا ہے، جب وہ کچھ بھی نہ پاتے ہوئے اسے حاصل کرنے کے لیے دوڑتا ہے، اسے اپنی محبوب کو اس بھیڑ سے تشبیہ دینے میں شرمندگی محسوس ہوتی ہے جسے چرواہے نے نظر انداز کر دیا تھا۔

فظللتُ أرعاها وظلّ يحوطها
حتى دنوتُ إذ الظلامُ دنا لها

فرميتُ غفلة عينهِ عن شاته
فأصبتُ حبةَ قلبها وطحالّها

حفظَ النهارَ وبات عنها غافلاً
فخلَتْ لصاحب لذةٍ وخلا لها

بالکل یہی معاملہ النابغہ الذھبیانی کےاشعار میں بھی ملتا ہے جب وہ النعمان بن المنذر کی خوبصورت بیوی کے دلکش سراپے اور جسمانی خطوط پر ایک فحش نظم لکھ دیتا ہے، پھر اسے نعمان بن المنذر کے خوف سے اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑتا ہے، (اس کا تذکرہ پچھلے حصے میں موجود ہے)۔ جبکہ المنخل یشکری اس کے مقابلے میں النعمان بن المنذر کی بیوی کی خوبصورتی سے ہی مسحور ہوا تھا، جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور تھی، مگر المنخل یشکری نے اپنی اشعار میں اس کی عفت و عصمت کا تذکرہ رکھا اور اس کی جسمانی اور جمالیاتی خصوصیات کو بیان کرنے میں ایک حد سے آگے نہیں بڑھا، عرب میں زمانہ قبل از اسلام شاعری میں عربوں کے درمیان جنسی لذت اور جسمانی محبت کی شاعری کے پہلے بنیادی ستون خاص طور پر زمانہ جاہلیت میں ہی قائم ہوئے تھے، اسی لئے محبت میں پاکیزگی کے تصور میں عمر بن ابی ربیعہ، سہیم، الاحوص اور العرجي کو اس وقت تک سمجھنا ناممکن ہے۔

جن کے اشعار کا اطلاق پاکیزہ یا کنواری محبت پر ہی رہا (کنواری محبت سے مراد کسی شادی شدہ عورت کے علاوہ، جیسے کئی شعراء کسی شادی شدہ عورت سے بھی ع، ق کے اظہار میں بے باک رہے)۔ جب تک اس عہد کی روشنی میں امراء القیس، النابغہ، العشا، اور المنخل یشکری کو بھی نہ سمجھا جائے، مصری ناقد احمد الحوفی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ شاعری میں قبل از اسلام فحش گوئی اور عورت سے ایسی چھیڑ چھاڑ مقامی نہیں بلکہ حبشہ سے یمن تک شمال کے علاقوں تک پہنچی ہے۔ کھلے عام چھیڑچھاڑ کا ان کے یقین اور قدامت پسندانہ رویے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (ظاہر ہے کہ مصر اہل حجاز میں کبھی بھی نہیں رہا اور اس عہد میں یمن اہل حجاز کے قریب ہی رہا)۔

Check Also

Aik Chiragh Aur Aik Kitab

By Muhammad Saqib