Qabal Az Islam Arab Shura Ki Nazmon Ke Aghaz Mein Aurat Ka Tazkira Kyun?
قبل از اسلام عرب شعراء کی نظموں کے آغاز میں عورت کا تذکرہ کیوں؟
ہمارے ہاں عرب شاعری کو اک کمال مانا جاتا ہے، بلکہ شائد پوری دنیا عرب کلاسیک شاعری کے اسلوب و تخیل کی معترف ہے، عرب کلاسیک شاعری کا سب سے عروج کا دور قبل از اسلام مانا جاتا ہے، قبل از اسلام میں عام طور سے اشعار میں لازم ابتدائی اشعار میں کسی خوب صورت عورت کے جمال کا تذکرہ ملتا تھا اور یہ سلسلہ بعد کے زمانوں میں بھی چلتا رہا۔ عرب شعراء ابتدائی غزلیہ اشعار میں شاعر عورت کے جمال اور اس کی اچھی صفات کا ذکر کیا کرتے تھے۔ پھر چاہے موضوع کو کسی بھی واقعے نسبت، جنگ یا شخص کی توصیف میں بیان کرتے، مگر ایسا نہیں ہے کہ ایسا قبل از اسلام والے ہی وہ لوگ نہیں تھے جنہوں نے اپنے اندر محبت، جوانی اور جذبہ نسواں کا جذبہ پیدا کیا تھا، نہ ہی قوموں کے درمیان محبت اور چنگ یا رقابت کی شاعری پیدا کرنے والے وہ پہلے لوگ تھے۔ اس انسانی تخیل کا ماضی کے قدیم انسانوں سے گہرا تعلق غاروں کے دور اور پہلے کی قدیم تہذیبی معاشروں سے بھی رہا ہے۔
تاہم، خواتین کے بارے میں ان کے حد سے زیادہ شاعری میں اظہارئیے نے ان کی زندگیوں اور شاعری میں انہیں ایک خاص مقام دینے میں ایک وجوہ شائد صحرائی فطرت نے بخشی تھی، جہاں ایک شاعرانہ سکون میسر رہا، یا وہاں کے سخت موسمی اتار چڑھاو اور زندگی کا فطرت سے قریبی امتزاج کا نتیجہ تھا، یا وہاں مختلف معاشرتی ظلم، تشدد اور امن کے نقصان سے آباد زندگی کا وجود تھا۔ کیونکہ صحرا اعتدال کی گنجائش سے عاری تھا، دن میں چلچلاتی دھوپ ٹیلوں پر اپنی شعاعیں اتار کر انہیں تپتی ہوئی زمین کی وسعتوں میں تبدیل کر دیتی ہے، جہاں خشک سالی اور بانجھ پن جسموں سے پہلے روحوں کو متاثر کرتا تھا، وہاں عورت کا احساس اور اس کی موجودگی کی مٹھاس ان کی زندگی کی ایسی حالت میں جو انسانی راحت و سکون اور مانند پانی پیاس بجھانے کی ضرورت کو پورا کر سکے۔ لیکن سورج کے ڈھلتے ہی صحرا کی لامتناہی وسعت میں سورج کی مفرور چمک کے مقابل چاند کی روشنی ایک ٹھنڈا احساس پیدا کرتی تھی، رات کی فرحت بخش ٹھنڈک گرمی کے احساس کو کم کرنے کا موقع دیتی تب وجود کی بے پناہ خاموشی، اور آسمان اپنی وسعتوں میں بے شمار ستاروں سے منور ہوتا، تو انسانی فطرت شاعری کے تمام اسباب فراہم کردیتی۔
لیکن ساتھ ساتھ انسانی وجود کے لئے اضطراب اور خوف کا خطرہ بھی پیدا ہوتا، ایسا احساس جیسے کوئی اپنے دشمنوں کے ظلم سے بچنے کے لیے بیابان میں کھو گیا ہو، یا اس کے لیے جو کسی عزیز کا انتظار کررہا ہو، جس کی ملاقات کی آرزو میں وقت گزرتا چلا جارہا ہو، جیسے رات وقت کے ساتھ نہیں دوڑ رہی بلکہ انتظار میں سست روی کا شکار ہو جائے، جہاں ایک سیکنڈ وقت کے ایک گھنٹے کے برابر ہو جائے، اور ایک گھنٹہ پوری ابدیت کے برابر ہے۔ جیسے عمرو القیس نے اپنی نظم میں رات کے وقت اپنے مصائب کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے، اور اس دوران اس کا جنوں نے جس کیفیات سے اسے دوچار کیا ہے، اس کا صحیح اندازہ قبل از اسلام کی عرب شاعری کا ایک بہترین مظہر ہے، جس میں صحراء کی شب کی حقیقت کا خلاصہ اور قدرتی ساخت میں انسانی روح کی گہرائیوں کی گہرا ادراک شامل ہے، جیسے امراء و القیس کے یہ اشعار ہیں۔
ولَيْلٍ كَمَوْجِ البَحْرِ أَرْخَى سُدُوْلَهُ
عَلَيَّ بِأَنْوَاعِ الهُمُوْمِ لِيَبْتَلِي
فَقُلْتُ لَهُ لَمَّا تَمَطَّى بِصُلْبِهِ
وأَرْدَفَ أَعْجَازاً وَنَاءَ بِكَلْكَلِ
ألاَ أَيُّهَا اللَّيْلُ الطَّوِيْلُ ألاَ انْجَلِي
بِصُبْحٍ وَمَا الإصْبَاحُ منِكَ بِأَمْثَلِ
ترجمہ:
اور بہت سی موجِ دریا کی طرح (خوفناک) اور تاریک راتیں تھیں جنہوں نے میری آزمائش کے لے اپنے پردے طرح طرح کے غموں اور مصائب و آلام سمیت میرے اوپر ڈال دیے تاکہ (وہ مجھے) آزمائیں۔
جب رات نے اپنی پشت دراز کی، سرین پیچھے کی طرف نکالا، اور سینہ کو ابھارا (یعنی رات طویل ہونے لگی) تو اس وقت میں نے اس سے کہا۔ اے ہجر کی شبِ دراز صبح بن کر روشن ہو جا (پھر ہوش میں آ کر کہتا ہے) مگر وہ صبح تجھ سے بہتر نہیں ہوسکتی یعنی جس طرح میں دن میں پریشان رہتا ہوں، اسی طرح رات بھی بے چینی میں گزرتی ہے۔
اسی طرح النابغة الذھبیانی کی رات بھی عمرو القیس کی رات سے بالکل مختلف نہیں ہے، اسی سستی اور خوف کے ساتھ، یہ معاملہ صرف صحراؤں کی مشابہت کی وجہ سے ہے، بالکل اسی طرح دونوں شاعروں کے حالات اور زندگی کے تجربات میں مماثلت بھی ہے۔ اگر عمرو القیس کی بھاری رات اس کے والد کی المناک موت کی عکاسی کرتی تھی، تو النابغة کی رات اور اس کے خوف کے سیاہ بھوتوں کے ساتھ جدوجہد اور اس کے النعمان بن منذر (یمن کا بادشاہ) کے ساتھ شدید اختلاف و دشمنی کی وجہ سے ہوئی، جس کی وجہ سے اسے نعمان بن منظر کے دربار سے بھاگ کر غسانیوں کے پاس پناہ لینی پڑی، وہ اپنے انجام کے نتائج سے خوف میں تھا، اور کبھی کبھی اپنے خوف کے بوجھ تلے وہ تصور کرتا ہے اور اسی حالت میں وہ نعمان سے یہ شعر کہتا ہے۔
وإنك كالليل الذي هو مدركي
وإن خلتُ أن المنتأى عنكَ واسعُ
ترجمہ:
تم رات کی مانند ہو، جو مجھے آپکڑتی ہے
اگرچہ میں سمجھتا ہوں کہ تم سے دور رہنے کی جگہ وسیع ہے۔۔ (اس شعر پر عرب ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ شعر میں لفظ (رات) اپنی تنہائی اور خوف کی وجہ سے دن سے زیادہ مناسب ہے۔
کچھ قبل از اسلام شاعروں کی شاعری کا ایک محور آوارہ مزاجی، اقتدار سے باہر رہنے کی کیفیات، اور قسمت کے خوف کی لعنت کی مذمت ملتی ہے جو ان، کی زندگی پر حملہ آور رہی اور اس پر بے دریغ طوفان برپا کئیا، جیسے طرفہ بن العبد نے لکھا، جس میں شراب، گھڑ سواری، اور جسمانی محبت جنون سے آباد صحرائی دنیا کا مقابلہ کرنے کی بابت سب سے مؤثر تثلیث ملتی ہے۔ اگرچہ شاعر، وجودی کیفیات کی اداس تہہ سے الگ کرنے کے احساس پر پھڑپھڑاتا ہے، وہ طرفہ بن العباد نوجوانی میں ہی شاہ عمرو بن ہند کے ہاتھوں مارا گیا، لیکن اس کی شاعری سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک جوان اور خوبصورت عورت کے ساتھ سکون اور تندرستی کے ساتھ جینا چاہتا تھا۔ قبل از اسلام لوگوں کی عورتوں کے ساتھ حد سے زیادہ لگاؤ کا تعلق کسی لحاظ سے وہاں قدرتی وسائل کی کمی اور زندگی کی خوشیوں اور مشغولیت کی کمی کی ضرورت سے بھی تھا، تو ان کے رویوں پر یہ جسم کی کیفیت ان کے واضح عدم توازن کی وجہ تھی۔
کیونکہ وہاں کا بدوی معاشرہ ویران خالی پن کے لامتناہی پھیلاؤ کے سامنے اپنی موجودگی کی اہمیت کو محسوس کرتا تھا۔ جب وہ اپنی تنہائی سے سکڑتا اور نامعلوم خوف میں ڈوبا رہتا تھا، وہ خود کو دیکھتے ہیں، کہ وہ اپنے خیمے کو چھوڑنے پر مجبور ہیں، اس تلاش میں کہ صحرا میں دور دراز پانی کے نخلستان اور چراگاہیں کہاں موجود ہیں، جو انہیں ہر وقت خوف کی کیفیت میں رکھتا، کیونکہ روزی کے قلیل ذرائع کا معاملہ ان کے ساتھ تھا۔ یہی معاملہ اکثر قبائل کے درمیان تنازعات میں تبدیل ہوجاتا تھا جس کے شعلے کئی سالوں تک سلگنے تھے، اس کی مثال البسوس، داحس اور الغبراء۔ کی جنگیں ہیں۔
قبل از اسلام شعراء کس اپنی نظم اور حکایات میں خواتین کے جمال کا تذکرہ اپنے اشعار اور ہر نظم کے ابتدائیہ میں کرنے کا یہی ایک مقصود واضح ہوتا ہے، اور نمایاں اشعار میں ان کو جگہ دینا اس وقت کے لحاظ سے قطری غیر معمولی نہ تھا۔ خواتین ہی عرب شعراء کے نظم میں ان کی نفسیاتی احساس اور اظہار کی کنجی رہی، شعراء عورت کی جسمانی ساخت کو اپنی لسانی ساخت میں بیان کرتے تھے۔ یہی ان کے متن کی حد بندی تھی، جس میں اسلوب اور شعر کو منظم و متوازن کرتے تھے، عرب شاعری کے دیوان اس صِنف کے ساتھ لا تعداد حیثیت سے بھرے پڑے ہیں۔ بہت سے شاعروں نے خوب صورت خواتین کا فتنہ خیز انداز میں ذکر کیا۔ ان میں عمر ابن ابو ربیعہ، اوب عمر العرجی، جمیل بن معمر یا جمیل بثینہ، الحارث بن خالد، عنترہ بن شداد اور دیگر شامل ہیں۔
زمانہ قبل از اسلام میں ہی بہت سی خواتین کو نمایاں حیثیت حاصل رہی جن کے نام شعراء کے کلاموں کے ابتدائی غزلیہ اشعار میں معروف ہوئے۔ ان ناموں میں سلمى، دعد، ہند، لیلی، فاطمہ، رباب، سعاد اور دیگر نام شامل ہیں۔ عرب خواتین کے حسن و جمال کے حوالے سے قریب دور میں ایک اہم کتاب "جميلات العرب، كما خلّدهُنّ الشعراء" کے نام سے خازن عبُّود نے تالیف کی ہے۔ ویسے بھی قدیم مخطوطات و اشعار میں ایسی بہت سی اور دیگر خواتین کا تذکرہ بھی ملتا ہے جن کو شعرا نے اپنی نظموں کا مو ضوع بنایا ہے۔ لیکن ایک انتہائی اہم بات اس کے دو پہلو سمجھنے ضروری ہیں کہ ایک پہلو میں ایسی کیفیت شعراء بہت سی نصوص میں عورت اور بربادی سے بیان کرتے ہیں، مگر دوسرا پہلو اہم ہے کہ وہ اشعار ضروری نہیں کہ صرف محبوبہ کی توصیفی صورت میں رہے بلکہ ان نظموں میں اپنی بیویوں بیٹیوں اور بہنوں کا تذکرہ بھی شامل رہا ہے۔
نوٹ:
1- اوپر مذکور شاعر "النابغة الذھبیانی" اصل نام ابو امامہ زیاد بن معاویہ ہیں، وہ غیث سے تھا، جو سنہء 535 میں پیدا ہوا تھا، اس کا شمار قبل از اسلام کے سب سے زیادہ فصیح شاعروں میں ہوتا ہے، اس کی شاعرانہ فصاحت کی شدت کی وجہ سے انہیں النابغة کا خطاب دیا گیا تھا، کیونکہ عرب شاعر ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ النابغة الذھبیانی سنہء 604 عیسوی میں انتقال کر گیا تھا۔
2- یہی طریق بعد از اسلام بھی رہا، بانت سعاد جو اصلا قصیدہ بردہ ہے، جس پر رسول اللہﷺ نے کعب ابن زھیر کو اپنی چادر عطا فرمائی تھی، حالانکہ وہ اپنی جان کے خوف اور معافی کا اظہار اس قصیدے میں کرتے ہیں مگر اس کا ابتدائیہ بھی رسول اللہﷺ کی تعریف میں عورت کے تعریف کے خصائل کے معنوں میں ہی کیا تھا، اور حسان بن ثابت سمیت اکثر قصائد میں بھی یہی طرز نمایاں نظر آتا ہے۔