Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Mazhabi Ya Mulhid

Mazhabi Ya Mulhid

مذہبی یا ملحد

یہ قریب پندرہ سولہ برس پرانی بات ہے جب ہم طارق روڈ کے کوئٹہ ہوٹل ہر رات بھر دوستوں کی گیدرنگ کرتے تھے، مکس گیدرنگ ہوتی تھی، ہم سب زیادہ تر اس وقت مذہبی اذہان کے تھے، کچھ عسکری طبیعت کی طرف مائل اور زیادہ تر تبلیغی اذہان، ہمارا ایک دوست جس نے کچھ عرصہ پہلے ہی امریکہ اسٹڈی ویزا اپلائی کیا تھا، اس کی فیملی کے کچھ افراد ویسے بھی امریکہ میں ہی رہتے تھے، امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں اس کا ایڈمیشن ہو بھی چکا تھا اور ایک سال اسٹڈی کے بعد وہ چھٹیوں میں آیا ہوا تھا.

ریشنل اپروچ کا مالک تھا، مگر ان دنوں تبلیغ میں وقت لگاتا تھا، اس کا ہم فرضی نام یہاں پر "علی" رکھ لیتے ہیں، مزے کی بات بتا دوں کہ میرے پاس فرینڈ لسٹ میں وہ ایڈ بھی ہے، لیکن ان دنوں وہ زیادہ سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتا، اس کے ذہن میں بھی مذہبی قصوں پر بہت سارے سوالات اٹھتے تھے ہمارے دوسرے دوستوں میں اسی گیدرنگ میں ایسے لوگ بھی تھے جو باقاعدہ فاضل مدارس کے عالم تھے، انہوں نے اس کے سوالات کا جواب دینا ترک کر دیا تھا لیکن میں کبھی اس کے سوالات سے گھبراتا نہیں تھا اور کبھی اسے قائل کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتا تھا، اس لیے میری اور اس کی اکثر گفتگو دیر تک جاری رہتی تھی۔

اب اصل قصہ یہ ہے کہ موصوف جو ایک برس امریکہ کی جس یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے وہاں اپنی کسی امریکی گوری لڑکی کے ساتھ معاشقے میں گرفتار تھے اور اسے تازہ تازہ کلمہ پڑھوا کر بھی آگئے تھے، وہ لڑکی مسلمان بھی ہوگئی تھی، مزید یہ کہ مسلمان ہونے کے بعد اس نے اس سے مختلف کتابوں کے تقاضے کرنے شروع کر دیے خود وہاں پر کسی اسلامک سینٹر کو بھی جوائن کر لیا تھا اور بہت تیزی کے ساتھ مذہب کو سمجھنا شروع کر دیا تھا، اکثر ہمارے درمیان موضوع گفتگو یہی بات رہتی بھی تھی، پھر میں سعودی عرب آگیا اور وہ واپس امریکہ چلا گیا، جانے سے پہلے ہمیں پتہ چلا تھا کہ وہ لڑکی اس سے شادی کے لیے بھی راضی ہوگئی تھی اور اس نے جاتے ہی اس لڑکی سے شادی بھی کر لی، پھر کوئی تین سے چار برس تک ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہوا.

غالبا سنہء 2012 کے آواخر میں یا سنہء 2013 میں اس نے مجھے اسکائپ پر میسج کیا، (ان دنوں سکائپ ایک اچھی سوشل رابطے کی ایپلیکیشن سمجھی جاتی تھی)۔ تھوڑی سی رسمی بات چیت کے بعد میں نے اس سے پوچھا کیا ہو رہا ہے اس نے کہا میری سٹڈی چل رہی ہے اور اس نے خود ہی بتانا شروع کیا کہ میں اپنی بیوی سے شدید تنگ آ چکا تھا ہمارے درمیان طلاق ہوگئی۔ میں نے اس سے مزید اپنے طور پر تو کچھ نہیں پوچھا لیکن شاید وہ بہت بھرا بیٹھا تھا، مجھے کہنے لگا کہ میں ایک عذاب میں پھنس چکا تھا۔

میری بیوی نے یہاں پر ایک اسلامک سینٹر جوائن کیا تھا جو اسے ہر روز نت نئی باتیں سمجھاتے تھے، میری بیوی نے میرا سونا اٹھنا بیٹھنا، غرض کے میرے ہر کام و افعال کو مذہبی قصوں سے تولنا شروع کردیا تھا، ہمارا سارا دن بحث مباحثے اور لڑائی جھگڑے میں گزرتا تھا اور وہ مجھے کہتی تھی کہ تم منافق ہو تم مسلمان نہیں رہے، تمہارا ہر عمل اسلام کے خلاف ہوتا ہے، بقول اس کے کہ ہماری لڑائی اتنی بڑھتی رہی کہ پہلے ہم نے صرف علیحدگی اختیار کی، اور اس کے کچھ عرصے تک ہم نے کوشش کی کہ ہم اس شادی کو بچا لیں، لیکن ہمارے درمیان میں ایسی کوئی انڈرسٹینڈنگ ڈیویلپ نہ ہو سکی کہ میں اس شادی کو بچا سکتا بالاخر ہم دونوں نے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا۔

میں مذہب کی ان ساری باتوں سے اتنا تکلیف میں مبتلا ہوگیا کہ میں اب ایتھیسٹ ہوں اور مجھے مذہب سے بہت سخت پریشانی ہوتی ہے۔ میرے لیے اس کی ساری باتیں بڑی عجیب سی تھیں لیکن میں چپ کرکے ہمیشہ کی طرح سنتا رہا، میں نے سوائے اسے ایک مشورہ دیا کہ تمہیں آرام کرنے کی ضرورت ہے اور مناسب سمجھو تو اپنی مینٹل ہیلتھ کونسلنگ کی طرف کچھ توجہ دو۔

وہ زور سے ہنسنے لگا اور مجھے کہنے لگا کہ مجھے معلوم ہے تم بھی یہی کہو گے، میں نے کہا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ تم صحیح یا غلط کے پیمانے پر اپنے آپ کو اس وقت جانچو کبھی کبھی مینٹل ہیلتھ کونسلنگ کسی بھی نارمل انسان کی ضرورت ہو سکتی ہے اور ممکن ہے کہ مجھے بھی کبھی اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے، بہرحال قصہ مختصر یہ ہے کہ اسی نے مجھے بتایا کہ علیحدگی کے بعد اس کی بیوی نے اسی اسلامک سینٹر کے کسی استاد سے شادی کر لی تھی اور دو ماہ بعد اس سے بھی طلاق لے لی تھی، پھر وہ کافی شدت پسند گروہوں کے ساتھ نظر آتی رہی، اور اب کافی عرصے سے اس سے اس کا رابطہ بھی نہیں ہے۔

علی چونکہ امریکہ میں رہتا تھا اس لیے اس کے لیے ایسا کچھ مسئلہ نہیں ہوا میرا خیال تھا کہ وہ ایک ذہنی اذیت سے گزر رہا تھا، جس میں اس نے مذہب کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ اس کی زندگی کا ہر معاملہ مذہب کے حوالے سے اس کی بیوی ناپ تول کرتی تھی، ایک ایسی خاتون جسے علی نے ہی مسلمان کیا تھا وہ اتنی شدت سے مذہب کو پڑھنا شروع ہوئی جہاں اسے تقوی کے اعلی معیار کے قصے سنائے جاتے ہیں جیسے پوری رات ایک وضو میں اتنے نفل پڑھ دیے وغیرہ وغیرہ وہ ایسے تمام فضائل کے قصے سننے اور پڑھنے کے بعد اپنے شوہر کو اسی پیمانوں پر جانچتی تھی۔

المختصر یہ ہے کہ یہ ایک کیس نہیں ہے ایسے میں نے کئی کیس دیکھے ہمارے گھر کے پاس ایک صاحب تھے، جن کی مالی حالت بہت بہترین تھی اور روزانہ انہوں نے رات کو شراب کی بوتلیں پینی اور اسی طرح کے معاملات میں رہنا تھا، کچھ تبلیغی دوستوں نے انہیں گھیرا اور ایک سہ روزے پر لے گئے، اس بندے میں تھوڑی سی تبدیلی آئی، آہستہ آہستہ اسے چار مہینے کے لیے قائل کیا گیا اور جس دن وہ چار مہینے سے واپس آیا فجر کی نماز پڑھ کر وہ اپنے گھر کی طرف گیا تو پورے محلے والوں نے ایک زوردار دھماکے کی آواز سنی کیونکہ اس نے سیکنڈ فلور سے اپنے گھر سے ٹی وی، وی سی ار اور اس طرح کی تمام چیزیں نکال کر گلی میں پھینکی، پھر وہ شخص ایک تماشہ ہی بن گیا کچھ دن وہ پہلی صف میں مسجد کی نماز پڑھ رہا ہوتا تھا اور کچھ دن بعد وہ داڑھی صاف کرکے شراب کی بوتلیں پی کر گلی میں غل غپاڑہ کر رہا ہوتا تھا، بالاخر ایک دن اس نے خودکشی کر لی، جس نے خود کشی کر لی اس کا میں اصلی نام یہاں لکھ دیتا ہوں اور شاید بہت سارے لوگ جانتے بھی ہوں گے، وہ طارق روڈ پر لبرٹی چوک کے پاس "لطیف فروٹ چاٹ والا "عبداللطیف" تھا۔

میں یہ ساری باتیں کیوں لکھ رہا ہوں، صرف اسی تجرباتی میزان پر لکھ رہا ہوں کہ اگر آپ مذہب پسند ہیں تو اپنے مذہب کے یا اپنے تقوی کے معیار کے مطابق لوگوں کی زندگی کو اذیت مت بنائیں، لوگوں کو جانچنا بند کر دیں۔ ورنہ لوگ علی کی طرح مذہب سے باغی ہو کر ملحد یا دین سے ہی انکاری ہو جاتے ہیں یا پھر عبداللطیف کی طرح آخر کار خودکشی کر لیتے ہیں۔ میرے جیسے لوگوں کو کمزور حالت میں ہی مسلمان رہنے دیں، مذہب سے محبت پیدا کرنے کا موقع دیں نہ کہ لوگوں کو متنفر کردیں۔

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz