Masjid Jawatha
مسجد جواتا
اسلامی تاریخ کی حامل ایک ایسی تاریخی مسجد کا تعارف، جس کا تذکرہ شائد عمومی طور پر اسلامی تاریخ پر نظر رکھنے والے بھی نہیں جانتے کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبویﷺ کے بعد اسلامی تاریخی میں دوسری مسجد "مسجد جواتا" کو یہ اعزاز حاصل ہے جہاں مسلمانوں نے نماز جمعہ ادا کی۔ (یعنی تاریخ اسلامی کی یہ دوسری مسجد ہے جہاں پر مسجد نبویﷺ کے بعد پہلی بار صلاتہ الجمعہ کی نماز ادا کی گئی تھی۔ ویسے تو نمازِ جمعہ مکہ معظمہ میں فرض ہوچکی تھی، ابتدائی مہاجرین کے سردارحضرت مصعب بن عمیرؓ نے رسول اﷲﷺ کے حکم سے پہلا جمعہ مدینہ میں ادا کیا تھا، لیکن اس سے قبل نماز جمعہ کی مدینہ میں ادائیگی کی دو روایات ملتی ہیں۔
روایت نمبر 1- سیرت ابن ہشام میں روایت ہے کہ رسول ا ﷲﷺ ہجرت کے بعد پیرکے روز قبا پہنچے جہاں انہوں نے چار دن وہاں قیام کیا، پانچویں روز جمعے کے دن وہاں سے مدینے کی طرف روانہ ہوئے راستے میں بنی سالم بن عوف کے مقام پر تھے کہ نماز جمعہ کا وقت آ گیا، اُسی جگہ جہاں بعد میں "مسجدِ غیب" بنی، جسے اب مسجدِ الجمعہ کہا جاتا ہے آپﷺ کی امامت میں اسلام کا پہلا جمعہ ادا فرمایا گیا۔ (اس وقت جہاں آج مسجد جمعہ ہے، اس وقت اس جگہ مسجد نہیں بنی تھی)۔
روایت نمبر 2- مدینہ منورہ میں رسول ﷲﷺ کے حکم سے حضرت اسعد بن زرارہؓ نے فرمائی، اس پہلے جمعہ میں 40 حضرات شریک تھے، پھر جب رسول اﷲﷺ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے پہلا جمعہ "قبا" سے روانہ ہوکر محلہ بنو سالم بن عوف میں ادا فرمایا، جہاں بعد میں ایک مسجد بنادی گئی، جو "مسجدِ جمعہ" کے نام سے موسوم ہوئی۔
مسجد جواتا، سعودی عرب ضلع شرقی الاحساء گورنریٹ میں واقع ہے، اور یہ مسجد تاریخی شہر الھفوف سے تقریبا 17 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے، اب یہ جگہ اسی نام "جواتا" سے مشہور ایک پارک کے اندر واقع ہے، یہ جگہ ایک پکنک پوائنٹ ریسٹ ایریا اور پلے ایریا کے طور پر بھی مشہور ہے میں، تقریبا ََآج سے چھ برس پہلے یہاں گیا تھا، مگر اس وقت مجھے اس جگہ کی تاریخی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا۔
تاریخی ذرائع کے مطابق بعثت نبویؐ کے وقت الاحساء میں قبیلہ"بنو عبدالقیس"(Bani Abd al-Qays tribe) آباد تھا، اور قبیلے کے حاکم "المنذر بن عائد" نے بعثت نبویؐ کی خبر سن کر اپنا ایک نمائندہ رسول اﷲﷺ کے پاس مکہ مکرمہ بھیجا تھا اور بعد از نبوت کے حوالے سے مکمل یقین کر لینے کے بعد المنذر بن عائد نے اپنے پورے قبیلے کے ساتھ اسلام قبول کرلیا تھا۔ اس موقع پر قبیلے کے حاکم المنذر بن عائد نے مسجد جواتا تعمیر کی۔ یہ سنہ7 ہجری (سنہء 629 یا سنہء 636) کا واقعہ ہے۔
چونکہ یہ مسجد رسول اﷲﷺ دور میں جواتا میں تعمیر ہوئی تھی، جواتا قبیلہ "عبد القیس" کے ایک دیہات میں سے ہی ایک ہے، اور یہ اب بھی موجود ہے، یہ الھسیلیہ، الکالبیہ اور المقام گاؤں کے شمال میں واقع ہے، یہ سب الاحساء کے مشرقی اطراف کے دیہات ہیں، حدیث کی کتابوں اور مورخین کے مطابق جواتی اس وقت قبیلہ عبد القیس ایک قلعہ یا محل تھا، جو اس خطے کا پرانا نام ہے جس میں بحرین، الاحساء اور القطیف یا آج کے سعودی عرب کا مشرقی ساحل شامل ہے، اس وقت ضلع شرقی کا حاکم "المنذر بن عائد" الھفوف، الاحساء دمام، خبر اور ملک بحرین تک کا حاکم تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد المنذر بن عائد کے حکم پر یہاں مسجد کی تعمیر کے بعد پہلی بار نماز جمعہ کی ادائیگی ہوئی تھی ابو داؤد کی اس روایت کے مطابق
"وفي رواية أخرى، روى أبو داود في كتاب الصلاة حدثنا عثمان بن أبي شيبة ومحمد بن عبد اللّه المخرميّ لفظه قالا: ثنا وكيع، عن إبراهيم بن طهمان، عن أبي جمرة، عن ابن عباس قال:إن أول جمعة جمعت في الإِسلام بعد جمعة جمعت في مسجد رسول اللّه صلى الله عليه وآله وسلم بالمدينة لجمعةٌ جمعت بجواثى قريةٍ من قرى البحرين"
ترجمہ:"ابو داؤد نے کتاب نماز میں بیان کیا ہے کہ عثمان بن ابی شیبہ اور محمد بن عبد اللہ المخرمی نے ہمیں اپنا قول سناتے ہوئے کہا: انہوں نے ابراہیم بن طھمان سے اور ابو جمرا سے اور ابن عباس سے سنا کہ "اسلام کا پہلا جمعہ مسجد نبویؐ، مدینہ منورہ میں جمعہ کے لئے ادا کیا گیا، اس جمعے میں بحرین کے گاؤں میں ایک اور جمعہ کے بعد جمع کیا گیا۔"
امتداد زمانہ میں اس خطے اور مسجد نے کئی دلچسپ ادوار دیکھے، سعودی عرب کے مشہور مورخ حمد الجاسر "مشرقی خطے کی جغرافیائی لغت" میں جس کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔
رسول اﷲﷺ کے وصال کے بعد جب اس قبیلے کو ارتداد نے گھیر لیا تھا تو یہاں کے مشہور شاعر "عبد اللہ بن تہل الکالبی" نے اپنی شاعری کے ذریعے رسول خدا کے جانشین خلیفہ اول حضرت ابو بکر الصدیق سے مدد طلب کی تھی، چنانچہ ابو بکر الصدیق نے انہیں علاء بن الحدرامیؓ کی سربراہی میں ایک لشکر بھیجا اور بغاوت کا خاتمہ کیا، اور یہی اندازہ ہے کہ جاوتی کے جنوب مغرب میں زمین میں ان مسلمانوں اصحاب کی باقیات شامل ہیں جو ارتداد کی جنگوں میں شہید ہوئے تھے، ان صحابہ میں حضرت عبداللہ بن سہیل بن عمرو، اور حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی رضی الله عنھما بھی شامل تھے، مسجد جواتا کی لمبائی 20 ہاتھ اور چوڑائی 10 ہاتھ ہے۔
مسجد کی مغربی جانب جواتا کا چشمہ ہے۔ اس مسجد سے 27 میٹر شمال مغرب میں ایک قبر کے آثار ہیں جس کے بارے میں اندازہ ہے کہ یہ ان صحابہ میں سے ہی کسی کی قبر ہے جو یہاں شہید ہوئے تھے اور جنوب مغرب میں بھی قبروں کے آثار ہیں ان کے بارے میں بھی یہ اندازہ ہے کہ یہ اُن متعدد صحابہ کرامؓ کی قبریں ہیں جو سنہ 14 ہجری میں فتنہ ارتداد کی سرکوبی کے لیے ہونے والی جنگوں کے دوران شہید ہوئے تھے۔ مسجد جواتا کی مختلف زمانوں میں تجدید کی جاتی رہی ہے، سنہ 155 ہجری عمر بن عبد العزیز کے دور میں بھی تجدید ہوئی تھی اس کے بعد عباسی دور میں سنہ 159ہجری کے درمیان اس کی دوبارہ تجدید کی گئی تھی۔
نویں صدی ہجری میں یہاں کے ایک شیعہ اسماعیلی (Sevener Ismaili Shia Islam) کے گروہ قرامطیہ (Karmathians) نے یہاں فاطمیہ خلافت کی بنیاد رکھی تھی، اسی فرقے کی ایک حکمران احمد ابو طاہر الجنابی "دور سنہ 944 تا سنہء 970" (Ahmad Abu Tahir al-Jannabi) جس نے سنہء 930میں مکہ پر لشکر کشی تھی اور زم زم کے کنوئیں کو بھی شدید نقصان پہنچایا اور حجر اسود کو مکہ سے چرا کر یہیں اس مسجد میں لا رکھا تھا۔ متعدد تاریخی روایات کے مطابق حجر اسود یہاں پر 22 سال رہا۔
نویں صدی ہجری کے آخر میں سنہء 976 میں عباسی خلافت نے قرامطیوں کو شکست دی اس وقت مسجد جواتا کی چھت تباہ ہوگئی تھی، چنانچہ شمس الدعوان نے اسے پھر نئی شکل دی۔ لیکن اس مسجد کے ستون آج تک قائم ہیں۔ سنہء 1871میں جب سلطنت عثمانیہ نے مشرقی عرب پر قبضہ کیا اور الحساء میں مشرقی عرب عثمانی انتظامیہ کا صدر دفتر بنایا تب سلطنت عثمانیہ کے دور میں سلطان بایزید دوم نے جواتا مسجد کی تجدید کا حکم دیا تھا، بعد میں یہاں کی مقامی عرب ابن سعد نے سنہء 1913 میں دوبارہ قبضہ کرلیا تھا اس کے بعد یہ قصبہ ان کے زیر اقتدار رہا، پھر بالآخر الحساء سنہء 1932میں قائم ہونے والی مملکت سعودی عرب کا حصہ بن گیا۔
چودھویں صدی ہجری کے وسط تک یہ مسجد بدلی نہیں گئی جب اس کی تجدید سعودی حسن الشربتلی نے کی۔ اس کی آخری توسیع سے قبل، مسجد ایک چھوٹے سے 8 میٹر لمبے ٹیلے پر قائم تھی، جو 4، 5 میٹر چوڑی، اور 5، 5 میٹر اونچائی پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس کے ستون سرخ اینٹوں سے بنے ہوئے تھے، اور اس کے شمال میں ایک راہداری ہے جو 8 میٹر لمبا اور 6 میٹر چوڑی تھی۔ برسوں پہلے پتہ چلا تھا کہ موجودہ مسجد ایک پرانی مسجد کے کھنڈرات پر بنائی گئی تھی، اور شیخ عبد الرحمٰن المولا نے اپنی کتاب "ترک کی تاریخ" میں اشارہ کیا کہ گئے وقتوں میں یہاں صحرائی ریت کے طوفان میں یہ گم ہوگئی تھی اور اسے اس کے اصل ستونوں پر ہی تعمیر کیا گیا تھا۔
اس وقت اس مسجد کا زیادہ حصہ ریت کی وجہ سے غائب ہوگیا تھا، جسے شیخ احمد بن عمر المولا نے سنہ 1210ہجری میں بحال کیا تھا، اور نوادرات سے دلچسپی رکھنے والوں کا خیال ہے کہ پچھلی مسجد کے کھنڈرات ہی اصلا ََمسجد جواتا ہیں۔ جو اسی جگہ موجود ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق موجود مسجد کے یہ دو باقی ستون ان کی شکل اور اس کی تعمیر میں مستعمل مادہ کئی تعمیرات کی وجہ سے کسی ایک فن تعمیراتی دور سے نہیں ہیں، کیونکہ یہ مسجد کئی بار تعمیرات سے گذر چکی ہے۔
ایک بار سے زیادہ بحالی اور تعمیر نو کے کام کی وجہ سے عمارت میں استعمال ہونے والی مٹی منہدم پرانی عمارتوں سے لائی جانے والی ایک حقیقی آثار قدیمہ کیچڑ ہے۔ مسجد کی ٹھوس مٹی کے علاوہ اس میں قدیم مٹی اور مادوں کے اجزاء شامل ہیں۔ اس کے ریت سے ڈھکے جانے کے بعد، سعودی سیاحت اتھارٹی نے تاریخی "جواتا مسجد" کو دوبارہ بحال اور دوبارہ تعمیر کیا، جہاں اسلام کا دوسرا جمعہ پڑھایا گیا تھا۔ سعودی وزارت اوقاف نے اسے ایک خوبصورت انجینئرنگ ڈیزائن کے مطابق اس کی دوبارہ تعمیر اور توسیع کی ہے، اور اس کے رقبے کو کئی بار دگنا کردیا ہے۔
سنہ 1409 ہجری میں سابق حکمران مرحوم فہد بن عبد العزیز نے پرانی مسجد کو منہدم کرنے، اس کی تعمیر نو، اسے وسعت دینے اور ضروری سہولیات اور خدمات مہیا کرنے کا حکم دیا تھا، جیسے امام اور معززین کے لئے رہائش گاہ، ایک لائبریری، قرآن کریم حفظ کرنے کے لئے ایک اسکول، بیت الخلا، وضو خانہ اور خواتین کے لئے نماز کا حصہ، سنہ 1412 ہجری میں اس مسجد کا افتتاح ہوا اور وہ اس وقت اس قابل بن گیا کہ چھ سو پچاس نمازیوں کو اس میں سات سے زیادہ نمازیوں کی جگہ نہ ملنے کے بعد اس مسجد میں نماز کے چوکور کے وسط میں ایک خوبصورت مینار ایک مرکزی گنبد کے علاوہ چار چھوٹے گنبد بھی بنائے گئے۔
یہ جگہ جہاں اب مسجد جواتا ہے، "جواتی" قبل از اسلام بھی ایک تجارتی مرکز تھا جہاں سے تجارتی قافلے گذرتے تھے، جسے مقامی کاشتکاری، کھجوروں، زرعی مصنوعات اور خوشبو کے سامان کی تجارت کا مرکز سمجھا جاتا تھا، شاید یہی وہ تجارتی منڈی تھی جہاں ٹیکسٹائل اور تیار کردہ سامان "فارس" کی طرف تجارت کی جاتی تھی۔ اور یہ علاقہ پانی کی وافر مقدار کے لئے بھی مشہور تھا۔
آخری بار جنوری سنہء 2018میں مسجد جواتا کی تجدید اور تزئین نو کے جاری کام کا جائزہ لیا گیا تھا، کیونکہ سعودی عرب اپنے تاریخی ورثے کی تاریخی اہمیت کی حامل مسجد جواتا کو بھی سیاحتی پیکج میں متعارف کروارہا ہے، آج بھی یہ مسجد اسی نام سے مشہور پارک کے اندر واقع ہے، جواب ایک تفریحی مقام بھی ہے۔
نوٹ: مسجد جواتا کے لئے سعودی حکومت نے سنہء 1975٫ میں یادگاری ڈاک ٹکٹ کا بھی اجراء کیا تھا۔