Karobar Ke Sunehri Asool
کاروبار کے سنہری اصول
سعودی آنے سے پہلے میں نے پاکستان میں نوکری کے علاوہ کچھ کاروبار بھی کئے تھے، ان کاروبار میں نقصان کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ ایسا کاروبار کرنا بہتر ہے جو کھانے پینے سے متعلقہ ہوں، میرے پاس مناسب سرمایہ موجود تھا، میں نے بالاخر پولٹری کے بزنس پر پیسے انویسٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا، کراچی اور حیدرآباد کے درمیان میں ایک جگہ فارم ہاؤس میں ایک پولٹری فارم کی جگہ کرائے پر لے لی گئی، میں نے وہاں پر پورا سیٹ آپ ارینج کیا، وہاں سٹنگ کے لیے ایک اچھا آفس بھی بنا دیا تھا۔
یہ برائلر مرغیوں کا سیٹ آپ تھا، ان دنوں سردیوں کا موسم تھا، میں اکثر وہیں رک جاتا تھا، ابھی ہماری پہلی پروڈکشن تھی ہم نے کراچی شہر کے کچھ بڑے تاجروں سے بات کر لی تھی، پہلی کھیپ ابھی تیاری ہونے والی تھی کہ کراچی کے تاجروں نے آنا شروع کر دیا کچھ نے فون کرنے شروع کر دیے کہ وہ چکر لگائیں گے، تب میں روزانہ صبح اٹھ کر آفس میں بیٹھ جاتا ٹی وی دیکھتا اور اخبار پڑھنے لگ جاتا، ایک ملازم وہاں پر چائے اور کھانا بنانے کے لیے بھی موجود تھا، اور صفائی وغیرہ بھی کر لیتا تھا اس کے علاوہ دوسرا بھی تھوڑا سا سٹاف کام کے حوالے سے تھا۔
ایسے ہی ایک دن صبح جب میں آفس میں بیٹھا ہوا تھا تو ایک صاحب آئے، چونکہ مجھے زیادہ چیزوں کا بھی پتہ نہیں تھا اس لیے میں کوشش کرتا تھا کہ اپنے پارٹنر کا انتظار کرتا کہ وہ کب آئے گا اور وہی زیادہ چیزوں کو دیکھتا تھا، ان صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ اپنی مرغیوں کو فیڈنگ کیسے کرواتے ہیں، ظاہر ہے کہ میں نے تو کسٹمر کو مطمئن ہی کرنا تھا، میں نے ان سے کہا کہ ہم امپورٹڈ فیڈ منگواتے ہیں، اس کے علاوہ بھی ہم یہاں پر ان مرغیوں کے لیے بادام پستے اور مختلف میوہ جات کے کشتے بنواتے ہیں، جو گرینڈ کرکے ہم انہیں کھلاتے ہیں تاکہ یہ مرغیاں بہت طاقتور ہو جائیں، وہ مجھے حیرانی سے دیکھنے لگا تو میں نے اسے کہا کہ بھائی جیسے کبوتر باز اور بٹیر رکھنے والے لوگ اپنے پرندوں کو دیسی گھی میں بھگو کر بادام اور پستوں کی گریاں کھلاتے ہیں، ہم بھی ایسے ہی ان مرغیوں کو بہترین غذا کھلاتے ہیں۔ وہ صاحب بہت حیران ہوئے، بہرحال میں نے انہیں اپنی مرغیوں کی بے انتہا تعریف کرکے بھیج دیا۔
دو دن بعد میرا پارٹنر بہت غصے میں میرے پاس آیا اور مجھے کہنے لگا کہ یار یہ تم نے کیا غضب کر دیا وہ جو بندہ یہاں پر آیا تھا جسے تم نے اتنی تعریفیں کیں، وہ بندہ انکم ٹیکس آفس سے آیا تھا، اس نے کہا کہ تم نے تو بہت کم اخراجات بتائے ہیں اس کاروبار کے، جبکہ تمہارے پارٹنرز نے تو جس طرح کا نقشہ کھینچا ہے اس حساب سے تو آپ نے انویسٹمنٹ اور اخرجات کی تفصیل میں بہت کم پیسے لکھوائے ہیں۔ وہ جرمانہ لگا کر چلا گیا ہے، اور ریٹرنز وغیرہ ہمیں دوبارہ بھیجنے ہونگے۔ ابھی بزنس کی ابتداء میں ہی ہمیں یہ پریشانی آن پڑی کہ انکم ٹیکس والے میری غلطی کی وجہ سے پیچھے پڑگئے۔
خیر ہم نے اس معاملے کو رفع دفع کیا، اور کام کی طرف توجہ کی، اس بات کو گزرے چند ہی دن ہوئے تھے ایک دن صبح صبح ایک اور صاحب گاڑی میں پہنچے اور مجھ سے مرغی کے ریٹ لینے لگے، اب میں پچھلی غلطی کی وجہ سے کنفیوز ہی تھا، دوران گفتگو انہوں نے بھی وہی سوال پوچھ لیا کہ آپ مرغیوں کو کون سی فیڈ کرواتے ہیں، میں نے چھوٹتے ہی کہا کہ بھائی ہم کچھ بھی اسپیشل فیڈ نہیں خریدتے بلکہ ہم تو ان مرغیوں کو روزانہ دو ٹائم پر چھوڑ دیتے ہیں اور یہ کیڑے مکوڑے کھا کر قدرتی غذا سے اپنا پیٹ بھرتی ہیں اسی لیے اتنی صحت مند ہیں۔ کچھ دیر بیٹھ کر وہ صاحب بھی چلے گئے۔
چیزیں حسب معمول نارمل تھیں کہ چند دن بعد ایک بار پھر پارٹنر میرے پاس غصے میں آیا، اور اس نے کہا کہ تھوڑے دن پہلے ایک صاحب آئے تھے تم نے ان کو کیا کہا، میں نے اپنے پارٹنر سے کہا کہ اس دفعہ میں نے بالکل غلطی نہیں کی، میں نے بالکل یہ نہیں کہا کہ ہم بہت اعلی غذا کھلاتے ہیں بلکہ میں نے تو انہیں کہہ دیا کہ ہم تو انہیں کچھ بھی خاص فیڈ نہیں کرواتے بلکہ وہ تو کیڑے مکوڑے کھا کرکے تیار ہو جاتی ہیں، ایک بار پھر میرا پارٹنر شدید غصے میں آ گیا اور کہنے لگا! تمہیں معلوم بھی ہے وہ کون آدمی تھا؟ وہ شخص محکمہ فوڈ سے آیا تھا اور اس نے ہمیں اچھا خاصا جرمانہ کیا ہے۔ اوہ! ایک بار پھر میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ یہ کیا ہوگیا، خیر ظاہر ہے زندگی تو نہیں رکتی معاملات ایک بار پھر سے چل پڑے اور اب میں مزید محتاط ہوگیا، کہ ہر آنے والے کسٹمر سے کس طرح بات کرنی ہے اور کسٹمر کے بھیس میں اگر کوئی حکومتی آدمی آئے گا تو اسے کس طرح ڈیل کرنا ہے۔
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اب میں ذہنی طور پر بالکل کاروباری اصولوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال چکا تھا، پھر چند دن بیتنے کے بعد ایک دن ایک اور صاحب بڑی گاڑی میں ہمارے فارم ہاؤس میں داخل ہوئے ان کے ساتھ ان کے دو اسسٹنٹ بھی تھے، سلام دعا کے بعد وہ صاحب ہمارے آفس میں بیٹھے، اس دن اتفاق سے میرا پارٹنر بھی افس میں ہی موجود تھا، میں نے ان کے لیے چائے وغیرہ منگوائی، کافی دیر انہوں نے ہم سے بات چیت کی، مختلف موضوعات پر بات ہوتی رہی، ہماری کاروباری ڈیل تقریباََ بن چکی تھی، جب سب معاملات طے ہو گئے تو اچانک اسی کسٹمر نے ایک دم سے کہا کہ آپ مرغیوں کو کون سی فیڈ دیتے ہیں، یہ سن کر میرے پارٹنر کا تو چہرہ فق ہوگیا، لیکن میں نے انتہائی با اعتماد لہجے میں اپنے پارٹنر کو دیکھا اور پھر کسٹمر کی طرف دیکھ کر کہا کہ:
ارے سر بے فکر ہو جائیں! یہ چوائس ہم نے اپنی مرغیوں پر چھوڑی ہوئی ہے، ہم انہیں بس کیش دے دیتے ہیں اور وہ خود جا کر اپنا کھانا پینا کر لیتی ہیں، اگر آپ اس بارے میں مزید معلومات کرنا چاہتے ہو تو آپ مرغیوں سے جا کر پوچھ لیں کہ وہ کیا کھاتی ہیں۔
یوں بالاخر ہمیں وہ آرڈر مل گیا۔۔
نوٹ: کاروباری رہنمائی کے سنہری اصول یہ ہیں۔
1- کاروبار میں کبھی بھی سچ نہ بولیں۔
2- کاروبار میں ہمیشہ جھوٹ بولیں لیکن جھوٹ بھی ناپ تول کر بولیں اور بندہ دیکھ کر بولیں یہ نہ ہو کہ وہ جھوٹ آپ کے گلے پڑ جائے۔
3- الحمدللہ جب آپ کاروباری ہوں یا کوئی بھی ایسا کام کریں جس سے آپ بھلے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، مگر فیس بک پر روزانہ اصلاح کار بن کر اصلاحی پوسٹ ضرور ڈالیں جس میں توبہ اذکار تزکیہ نفس وغیرہ کا بہترین ذکر ہو۔
4- زندگی میں یہ اصول یاد رکھیں کہ جب بھی آپ کو کوئی دعوت دے تو آپ اس سے پوچھ لیں کہ وہ دعوت میں آپ کے اوپر کتنا خرچہ کر رہا ہے اگر آپ کو لگے کہ وہ زیادہ خرچہ کر رہا ہے تو آپ اسے کہیں کہ میرے لیے دعوت کرنے کے بجائے وہ پیسے مجھے کیش دے دے یہ انتہائی بہترین عمل ہے، جس سے آپ کو بھی فائدہ رہے گا اور آپ کے میزبان کو اس سے بھی زیادہ فائدہ رہے گا کہ اس کو آپ جیسے بندے کی عجیب و غریب سبق آموز اور اصلاحی امواعظ سے چھٹکارہ مل جائے گا۔