Kaddour Benghabrit
کدور بن غبریت
سچ تو ہے کہ انسان کا پیدا ہونا ہی ایک جبر ہے، بنی نوع انسان کی تاریخ میں بہت سے ظلم و ستم، مصیبت اور ہر قسم کے جبر سے بھری پڑی ہے۔ تکلیف دہ امر ہے کہ یہ سلسلہ کبھی نہ رکنے جیسا ہے، مگر کبھی کبھی کچھ لوگ ظلم و جبر میں عجیب معاملات کر گزرتے ہیں ان کی یہ کہانیاں یقینی طور پر انسانیت میں چھوٹی سی امید پیدا کرتی ہیں۔ تاریخ میں ایسا ہی ایک شخص عبدالقادر بن غبریت نامی گزرا ہے، (پیدائش1 نومبر سنہء 1868 - وفات 24 جون سنہء 1954)، جسے عام طور پر سی کدور بن غبریت کہا جاتا تھا۔ جو دنیا میں (Si Kaddour Benghabrit) سے معروف ہوا تھا یہ الجزائر کے ایک مسلم مذہبی رہنما تھا جس نے بطور مترجم فرانسیسی وزارت کے لیے بھی کام کیا۔ وہ پیرس کی جامع مسجد کا پہلے امام بھی تھا۔
فرانس میں ہجرت کرنے سے پہلے الجزائر میں پیدا ہو کر فرانس پہنچا تھا، جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو جرمنی نے فرانس سے یہودیوں کو حراستی کیمپوں میں جلاوطن کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس وقت عبدالقادر یعنی سی کدور پیرس کی جامع مسجد کا امام تھا، اس نے علاقے میں موجود یہودیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آمادہ مسلمان خاندانوں کے ذریعے بہت سے یہودیوں کو پناہ دینا شروع کی تھی، یہ تمام لوگ ان یہودیوں کو پناہ دیتے تھے اور جب جرمن انسپکٹر آتے تو وہ یہودیوں کے ریکارڈ کے بارے میں جھوٹ بولتے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اس نے مسجد کے پاس خفیہ تہہ خانے بنائے ہوئے تھے جہاں وہ جنگ کے دوران یہودیوں کو چھپنے کی جگہ دیتا تھا۔ اس نے انہیں جعلی سرٹیفکیٹ بھی بنا کر دیئے، جو اس بات کی تصدیق کرتے تھے کہ وہ مسلمان ہیں، اس طرح اس نے کئی یہودیوں کو یقینی موت سے بچایا تھا۔
اس نے یہودیوں کے لئے مسجد کے دروازے کھولنے کی پالیسی رکھی ہوئی تھی، یعنی اگر کوئی یہودی بھی جسے جان کا خطرہ ہوتا تھا، وہ خود کو یا اپنے یہودی دوستوں کو جنہیں پناہ کی ضرورت ہو تو وہ انہیں اس مسجد میں ساتھ لا سکتے ہیں، سی کدور نے جنگ عظیم کے اختتام تک 500 یہودیوں کو بچایا۔ یقینا اس نے یہودیوں کی جان بچانے کے اس عمل میں اپنی جان کو بھی شدید خطرے میں ڈالا، اپنے اختیارات کو ان کی جان بچانے کے لئے استعمال کیا تھا۔ ہم سے کتنے لوگ اسے جانتے ہیں؟
نوٹ: بین کمیونٹی ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والی یہودی اور مسلم خواتین کی ایک انجمن دی باٹیسیوز ڈی پیکس نے سنہء 2005 میں یاد واشم کی کونسل کو ایک درخواست جمع کرائی تھی، کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ پیرس کی مسجد نے سنہء 1942 اور سنہء 1944 کے درمیان بہت سے یہودیوں کو بچایا، اور یہ کہ یاد واشیم کو اس طرح تسلیم کرنا چاہیے۔
"سی کدور بنگھبریت کو دنیا میں ایک بہترین انسان کے طور پر یاد رکھا جائے"۔
مگر یہ درخواست ادھوری رہ گئی تھی کیونکہ اس کے لئے گواہوں کے طور پر کوئی دستیاب نہ ہوسکا تھا اس کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ سی کدور نے یہودیوں کی جان بچانے کے لئے تمام جھوٹے ناموں کی دستاویزات کا سہارا لیا تھا۔
فرانسیسی ڈرامہ فلم Les hommes libres (فری مین، سنہء2011) میں بین غبریت اور ان کے کام کو نمایاں کیا گیا، اور فرانسیسی مزاحمت میں مسلمانوں کے تعاون کی کہانی بیان کی گئی ہے۔