1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mansoor Nadeem/
  4. Jadeediat, Ma Baad Jadeediat Aur Hamari Riwayat Parasti

Jadeediat, Ma Baad Jadeediat Aur Hamari Riwayat Parasti

جدیدیت، مابعد جدیدیت اور ہماری روایت پرستی

جدیدیت کے تصور سے مراد وہ دور ہے جو یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے بعد شروع ہوا اور بیسویں صدی میں ختم ہوا۔ یہ تصور اس دور میں مغربی لوگوں کے فکری سفر کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور سماجی، سیاسی، اقتصادی، اور فنی زندگی اور ان کی ترقی کے پہلوؤں کے گرد گھومتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنسی انقلاب جو کوپرنیکس Copernicus سے شروع ہوا، جو سائنسدانوں گیلیلیو Galileo، کیپلر "Johannes Kepler" اور برہے "Tycho Brahe" کی سرگرمیوں سے مضبوط ہوا اور آئزک نیوٹن Isaac Newton اور اس کی گھڑی نما مشینی دنیا پر ختم ہوا، اس کا سب سے گہرا کردار تھا اس تصور کے ظہور سے جدیدیت شروع ہو کر دوسرے شعبوں میں پھیل گئی۔

یہ ایک نئی دنیا کا آغاز تھا، جس میں عقل اور سائنس کا غلبہ ہے، ایک مختلف دنیا جو کبھی بھی تبدیل ہونے اور ترقی کرنے سے نہیں رکتی، وجود کے جوہر کو آشکار کرنے کی کبھی نہ ختم ہونے والی جستجو سے چلتی ہے۔ جدیدیت کی دو الگ نشانیاں ہیں۔

1- اسلاف کی مخالفانہ روش

2- عقل کی مرکزیت

پرانے یا روایتی تصورات کی مطلق طور پر مخالفت کرنا ایک حد تک انتہائی سخت موقف تھا، کیونکہ حقیقتا آپ ہر وہ چیز نہیں چھوڑ رہے یا رد کررہے جو صرف پرانے خیالات تصورات یا افکار ہیں، بلکہ آپ انہیں رد کر رہے ہیں جو اب درست یا قابل عمل نہیں رہیں لیکن نئی مرکزیت سے انحراف نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ سترہویں صدی کو عقل کا زمانہ کہا گیا، اس کے بعد اٹھارویں صدی، جسے روشن خیالی کا دور کہا گیا۔ یہ سائنسی دریافتوں کا دور تھا، تکنیکی انقلاب کا پیش خیمہ، اور ایک مختلف طرز زندگی کا اعلان بنا، بنیادی طور پر عقلیت پر مبنی زندگی، کیونکہ عقلیت جدیدیت کا مکمل جوہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کچھ روایت پسند مسلم دانشور یہ غلطی کرتے ہیں جو یہ تصور کرتے ہیں کہ جدیدیت سے مراد محض معلومات، علم اور ٹیکنالوجی کی ہماری مسلم دنیا میں منتقلی ہے، کیونکہ یہ کسی بھی چیز سے پہلے سوچنے کا طریقہ ہے۔

علم کے تبادلے کے حصول کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جدیدیت حاصل ہوگئی ہے، کیونکہ جدیدیت ایک روشن توانائی ہے جو دماغ اور روح سے نکلتی ہے اور انسانی زندگی کو بدل دیتی ہے، اور یہ محض ٹیکنالوجی کی درآمد اور کتابوں کے تراجم کا نام نہیں ہے۔ اس قسم کی جدیدیت بہت ہی گھٹیا اور سطحی ہوگی اور معاشرے کی زندگی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ماڈرنسٹ ہونے کا مطلب ہے آزادانہ، عقلی انداز میں سوچنا اور عقل کی پابندیوں پر قائم رہنا، اس لیے جس چیز کا امکان ہو اس کے بغیر کسی چیز کو ترجیح نہ دیں۔

یہ دور بھی سنہء 1930 کی دہائی میں ختم ہوا، اور کچھ اسکالرز نے اس کا خاتمہ سنہء 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر کیا، جب مابعد جدیدیت کا نعرہ بلند ہوا۔ اس کا مطلب عقلیت کو مسترد کرنا ہے، بلکہ عقل، منطق، سوچ خود اور سچائی کے تصور کو مسترد کرنا ہے۔ رد کی یہ تمام قسمیں گردش کرتی ہیں اور عقلیت کے رد سے آگے بڑھتی ہیں۔ مابعد جدیدیت کی ایک بڑی کامیابی تجرباتی سائنس کو چیلنج کرنا اور اس کی معروضیت پر سوال اٹھانا ہے۔ یعنی انہوں نے ابتدائی طبیعیات کے اصولوں کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ ان کا انکار بھی کیا، اور آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کا مذاق اڑایا، ان میں معروف شخص برونو لاٹور Bruno Latour وہ پہلا طنز نگار تھا۔

یہ فرینچ ماہر بشریات گزرا ہے جس نے The actor-network theory پیش کی تھی، یہ تھیوری تعمیر پسندی کی ایک شکل ہے جو سائنسی علم کے سماجی عزم کے خیال کو مسترد کرتی ہے، اس نظریہ کے مطابق، ہر وہ چیز ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے سائنسی بیانات اور نظریات کے پیدا ہونے کو متاثر کرتی ہے، نہ صرف سائنسدان، بلکہ مثال کے طور پر پس منظر کے مفروضے، طریقہ کار، تکنیک، سماجی اصول اور ادارے، معمولات، تجربات، پیمائش اور مناسب آلات، سائنسی متن وغیرہ، انہوں نے سائنس دانوں اور دنیا کی سچی وضاحت فراہم کرنے کی صلاحیت پر شک کیا، اور یہ کہ اگر یہ سچ ہے تو یہ ہر جگہ لاگو نہیں ہوگا۔

سائنسدان جو کہتے ہیں وہ بہت سی کہانیوں میں سے صرف ایک کہانی ہے، اور وہ یعنی مابعد جدیدیت پسند، حقیقت اور دنیا کی وضاحت کے لیے دوسری مسابقتی کہانیاں لے کر آ سکتے ہیں۔ یہ بالکل ایک شکی یا ظنی خیال ہے، سوفیسٹوں کے سوچنے کے انداز سے کم نہیں جو کسی بھی علم کے امکان سے انکار کرتے تھے، صوفیسٹوں کا فلسفہ مذہب، قانون اور اخلاقیات کی تنقید پر مشتمل ہے، حالانکہ بہت سے صوفیسٹ بظاہر اتنے ہی مذہبی تھے جتنے کہ ان کے ہم عصر رہے بلکہ ان میں سے کچھ تو ملحدانہ یا اگنوسٹک خیالات تک رکھتے تھے۔ اس طرح، مابعد جدیدیت نے ہر غیر معقول فکری دھارے کو زندہ کیا اور ہر خیال تصور یا کہانی و افسانے کو قبول کیا، اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ ایک نیا مابعد جدیدیت ہے۔

نئے مابعد جدیدیت کی سوچ کے اس دھارے نے تیسری دنیا کے توہم پرست طبقات کو بہت حوصلہ دیا، جب کہ عقل کا زمانہ ان کے وجود سے مٹنے والا تھا۔ زائچہ کے مسئلے اور "آج آپ کی قسمت" سے لے کر زبان کی دھوکہ دہی "موٹیویشنل اسپیکرز" اور اس پر شک کرنے کی ضرورت تک، متبادل ادویات کے افسانے، قدیم نسخہ جات کا تصور علاج اور سائنس کے حقائق پر سوال اٹھانے تک، سبھی کو کسی نہ کسی مابعد جدید میں حامی مل سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ مابعد جدیدیت واضح طور پر جدیدیت کا مقابلہ نہیں کرتی اور جامعیت، انضمام، اتحاد، ہم آہنگی اور کرداروں کے تبادلے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن یہ عقلیت کے خلاف اپنی موروثی مخالفت سے انکار نہیں کر سکتی۔ یہ کسی بھی مسئلے کا فیصلہ کرنے کے لیے اوزار یا معیار کے بغیر، مکمل حقیقت کا مطالبہ کرتا ہے۔

مابعد جدیدیت کا رجحان ان مغربی معاشروں کے لیے موزوں ہو سکتا ہے جو عقل کے سائے میں رہنے سے مطمئن ہیں اور اس کی سختی اور واضح خطوط سے تنگ ہیں، لیکن مابعد جدیدیت اب ہمیں روایت پسند معاشروں میں سوٹ نہیں کرتی، کیونکہ ہمارے معاشروں میں فطری توہم پرستانہ سوچ کی طرف رغبت اور عقل سے فطری نفرت موجود ہے، کیونکہ ان کے تمام احکام عقل کے متعلق ہیں، اور یہ اس کے خلاف تنبیہ کرتے ہیں، اس پر شک کرنے اور اس پر بھروسہ نہ کرنے کی تاکید کرتے ہیں، اور مابعد جدیدیت اسے غیر معقول رہنے کا کافی جواز فراہم کرتی ہے۔

جب میں روایت پسند معاشرے کے بارے میں بات کرتا ہوں تو میں ان انتہا پسندوں میں سے نہیں رہونگا جو یہ دعویٰ کریں کہ یہ ایک جینیاتی مسئلہ ہے، لیکن مجھے یہ ضرور کہنا پڑے گا کہ روایت پسند معاشروں میں کا یہ پیچیدگی ثقافتی مسئلہ ہے جسے ایک بار حل کرنے کے بعد وہ نہیں رکے گا۔ دنیا میں کوئی ناپاک جنس اور خالص جنس نہیں ہے، تمام انسان برابر ہیں اور جب بھی نارمل ماحول ہوگا ہمیں نارمل لوگ ملیں گے۔ یہ ماڈرنسٹ تحریک کی خامیوں میں سے ایک ہے، جب اس کے کچھ بڑے نظریہ دانوں نے یہ تصور کیا کہ جدیدیت کی سوچ ایک خاص نسل کے لیے مخصوص ہے، اور یورو سینٹرزم کے نعرے بلند ہوئے۔

یہ ایک اور مسئلہ ہے، اور ایک الگ مبحث کا آغاز ہے، مگر ہمیں مابعد جدیدیت کی تحریک کے حق میں ایک نکتہ ضرور اسکور کرنا چاہیے کیونکہ اس نے یورو سینٹرزم کا مقابلہ کیا۔ اب آخری بات یہ ہے کہ گفتگو کو اس مشکل مسئلے تک محدود رکھا جس سے ہماری روایتی دنیا دوچار ہے۔ ہمیں ایک طویل جدید دور کی ضرورت ہے، جیسا کہ یوروپی اس سے گزرے اور اس سے تھک جانے تک زندہ رہے۔ عقل کی سختی کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے ہمیں دو تین صدیاں درکار ہوں گی اور پھر ہر واقعے میں گفتگو ہوگی۔

اب مزید گفتگو کے بجائے ایسی تحریر لکھنے کے بعد صرف ایک کپ چائے اور سگریٹ بہت ضروری ہے۔

Check Also

Chand Baatein Apne Publishers Ke Baare Mein

By Ali Akbar Natiq