Insani Jan Ki Ahmiyat
انسانی جان کی اہمیت
سعودی عرب میں اسی ہفتے سرکاری سطح پر یہ اعلان ہوا ہے کہ جو لوگ انسانی زندگی بچانے کے لیے خون عطیہ کرتے ہیں، انہیں ملکی سطح کے بڑے اعزازات سے نوازا جائے گا۔ پورے سعودی عرب کے تمام اضلاع سے تقریبا 60 مقامی شہریوں اور 50 غیر ملکی جو سعودی عرب میں مقیم ہیں ان کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے، یہ ان لوگوں کے نام ہیں جنہوں نے زندگی میں دس بار مختلف مواقع پر خون عطیہ کیا ہے، شاہی ایوان سے انہیں"تمغہ برائے میرٹ" دیا جائے گا۔
یہ احساس کہ دنیا میں زندگیاں بچانے والوں کو سرکاری انعامات دئیے جاتے ہیں یہ بات شائد ہمارے معاشرے کے لئے دیکھیں ہو، کیونکہ جہاں پر سب سے بڑے تمغے جان لینے پر دئیے جاتے ہیں، اور عوامی سطح پر زومبیز کے گروہ بھی مختلف حوالوں سے انسانی جان لینے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ نہ ہی سماجی طور پر اس کی پذیرائی ہے اور بدقسمتی سے مذہبی طور پر بھی صرف ہمارے ہاں پاکستانی مذہبی تفہیم میں اس حوالے سے شدید ردعمل موجود رہا ہے۔
اسی طرح پاکستان کی تاریخ میں ایک بہت بڑا نام اگر تصور کیا جائے تو اس خاتون کا نام رفعت زرین ہے، اس خاتون نے پاکستان میں ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی، اس نے مرنے کے بعد اپنے آپ کو امر کردیا، پاکستان کی تاریخ میں یہ ایک انتہائی بڑا اقدام اس لئے سمجھا جائے گا کیونکہ پاکستانی معاشرے میں ایسا کیا جانا ایک مشکل کام سمجھا جا سکتا ہے۔ رفعت زرین نے پچھلے برس کے آخری حصے میں اپنی موت سے قبل وصیت کے مطابق اپنے جسم کے تین اعضاء عطیہ کئے اور اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ جن تین افراد کو یہ اعضاء دیے گئے، آج وہ تینوں افراد ایک بہترین اور صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔ ان خاتون کو شائد ہمارے ہاں کم لوگ ہی جانتے ہونگے۔ حالانکہ مغربی ممالک کو تو چھوڑیں، عرب ممالک میں بھی اعضاء عطیہ کرنے کو ایک بہت بڑا انسانی عمل سمجھا جاتا ہے، سعودی عرب میں تو موجودہ بادشاہ شاہ سلمان اور اس کے بیٹے محمد بن سلمان نے اپنی ذات سے اپنی زندگی میں اعضاء عطیہ کرنے کی وصیت کی ہے۔ اس کے لئے یہاں باقاعدہ نام رجسٹر ہوتا ہے۔
جب حکمران خود یہ عمل کریں گے تو عوام کیسے پیچھے رہے گی، سعودی عرب میں پچھلے برس اعضا کا عطیہ کرنے والوں کو بھی سعودی عرب کے سب سے بڑے ملکی اعزازات سے نوازا گیا ہے، اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنا کوئی اعضاء چاہے کسی رشتہ دار یا کسی بھی ضرورت مند کو عطیہ کیا ہو، ان کے لئے انتہائی بہترین ریاستی مراعات کے علاوہ انہیں ملکی سطح پر ملک کے سب سے بڑے ایوراڈ سے نوازا گیا ہے۔ ایسے افراد کے لئے ملکی ایئر لائن میں سفر فری ہے، سعودی عرب کے تمام بڑے ہسپتالوں میں ان کا علاج مفت ہے، بلکہ ترجیحی بنیادوں پر علاج کی سہولت مفت میں دستیاب ہے۔
اس کے علاوہ اعضاء عطیہ کرنے والے افراد اگر کسی متعدی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں تو بھی ان کی نگہداشت خصوصی بنیادوں پر ہوگی۔ موت کا سامنا تو سب کو ہی کرنا ہے، مگر یہ سوچیں کہ آپ کا جسم مرنے کے بعد کتنی زندگیوں کے کام آسکتا ہے، اور یہ بھی سوچیں کہ آپ ایک ایسے مردہ معاشرے میں رہتے ہیں جہاں انسانوں کی زندگیاں بچانے والوں کے مقابلے میں انسانوں کی جان لینے والوں کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ اس تصور کو بدلنا کتنا ضروری ہے۔ پوری دنیا میں یہ تصور بدل چکا ہے ہمیں بھی اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: سوئٹزرلینڈ کی نیشنل آرگن ڈونیشن فاؤنڈیشن سوئس ٹرانسپلانٹ کا کہنا ہے کہ انسانی اعضا کے عطیے میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مرنے والوں کے آدھے سے زیادہ رشتہ داروں کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے پیاروں کی خواہشات کیا تھیں۔ ممکن ہے کہ وہ اپنے جسم کا کوئی اعضاء عطیہ کرنا چاہتے ہوں مگر وہاں بھی یہ اتنا عمومی نہیں ہے، پھر ہمارے ہاں تو یہ بات سوچنا ہی شجر ممنوعہ ہے۔ کیونکہ ہمارے سماجی ڈھانچے میں مذہبی طور پر بھی اس کی غلط تفہیم موجود ہے اور انسانی احساسات میں بھی شائد لوگ اپنے مرنے والے کے جسم کو مرنے کے بعد کاٹنے پیٹنے کے معاملے میں حساسیت رکھتے ہیں۔
پاکستان میں ایک ایسا ہیرو ڈاکٹر ادیب رضوی ہے جن کی خدمات ہماری آنے والی نسلوں پر احسان ہے۔