Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Bakra Ya Water Cooler

Bakra Ya Water Cooler

بکرا یا واٹر کولر

عیدالاضحیٰ، جس میں مذہبی روایتی طور پر ہمارے ہاں قربانی بھی کی جاتی ہے، مگر ایک اور معاملہ چند سالوں سے قربانی کے بجائے واٹر کولر، غریب کی بیٹی کا جہیز سے ہوتا ہوا اے سی تک پہنچ گیا ہے، یقیناََ قربانی کا نعم البدل کچھ اور نہیں ہو سکتا، واٹر کولر اور اے سی کی اہمیت اپنی جگہ ہے، ویسے بھی اس قوم کی کوئی بھی سمت درست تو ہے نہیں۔ دونوں ہی اطراف والے بے تکی ہانکے چلے جاتے ہیں۔

مگر میں یہ بھی دیکھتا ہوں فی زمانہ ہمارے ہاں یہ مذہبی رسم یا سنت ابراہیمی کے بجائے ایک الگ ہی دکھاوے اور اسٹیٹس مذہبی سیمںل کے علامتی مظہر کا روپ دھار چکی ہے، کسی کے دل کا حال یا کسی کے دکھاوے پر بات کرنا تو موضوع ہرگز نہیں ہے، مگر موجود صورتحال اس وقت ہر مظہری کیفیت میں دکھاوا ہی نظر آ رہی ہے۔

آپ کے خیال میں قربانی کا عمل سنت ابراہیمی ہے؟

یا فرض ہے؟

اگر تو قربانی استطاعت پر ہے۔

جو لوگ بہ آسانی کر سکتے ہیں کر لیں، مگر پچھلے ستر برسوں میں ہم اس قربانی کی مذہبی رسم کو درست طریقے سے عمل میں لانے کے بہر حال قابل نہیں بن سکے، عید کے بعد ہر گلی میں پھیلا تعفن ہمیں یہ احساس ضرور دلاتا ہے کہ ہم آج تک اس ایک شعائر کو صفائی کے ساتھ قابل عمل نہیں بنا سکے۔ لیکن جنہیں ہم بدو کہتے نہیں تھکتے، ان عرب ملکوں میں جن افراد نے قربانی کرنی ہوتی ہے وہ سلاٹر ہاؤس میں جا کر کروا کر آ جاتے ہیں، نہ رہائشی گلی محلوں میں جانور لانے کی اجازت ہوتی ہے، اور نہ ہی گندگی ہوتی ہے، نہ ہی گلی محلوں میں ایسے دکھاوے کہ جس سے قربانی نہ کرنے والوں کے بچوں یا ان کے دلوں میں کوئی تکلیف پیدا ہوتی ہو۔

مگر ہماری برصغیری معاشرت ایسے دکھاوے اور تکلیف سے اپنے مذہبی شعائر کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمارے برصغیر میں اسلام کے دوسرے معاملات کی طرح قربانی کا تصور بھی عجیب ہے۔ ایسی ایسی عجیب کہانیاں بنا دی جاتی ہیں، حالانکہ پوری دنیا میں کہیں بھی نہ ایسی کہانیاں بنتی ہیں اور نہ ایسا تماشا ہوتا ہے نہ دکھاوا ہوتا ہے۔ جو شخص بکرا یا گائے لا کر پورے محلے میں گھماتا پھرتا ہے، شام کو پورے محلے کے بچوں کو تماشہ دکھانے والے خوب جان لیں کہ آپ قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والے خاندانوں کو محرومی کا احساس دلاتے ہیں اور ان کے بچوں کو اس محرومی میں مبتلا کرتے ہیں۔

ویسے بھی جب قربانی ہے ہی صاحب استطاعت پر تو اس کی فرضیت بنیادی نصوص میں بھی نہیں ہے تو یہ موٹیویشنل پکچرز، ٹک ٹاک کی ویڈیوز اور پیسے جمع کرنے کی عجیب و غریب کہانیاں کہ قربانی کے لئے پیسے جمع ایسے ہوتے ہیں یا ویسے حساب کتاب جوڑ کر ہوتے ہیں، یہ بھی عجیب بات ہے اور اس کو گلیمرائز کرنا بھی عجیب بات ہے، یعنی اگر نماز فرض ہے کیا آپ اس فرض کے لیے روزانہ پانچ وقت کپڑے بدل کر تصویریں بنائیں گے؟ اس کے لئے اتنا دکھاوا کریں گے، کیا گلی محلے والوں کو گائے بیل بکرے دکھانا، ان کی قیمتوں کا شور غوغا، یہ ویڈیوز اور عملی دکھاوے یہ سب کیا ہے؟

ہمارے دیسی علماء کے مطابق تو جس کے پاس اڑتیس ہزار کے مساوی رقم موجود ہے اسے قربانی کرنا چاہئے۔

یہ ارٹیس ہزار کی موجودہ رقم کسی بھی صورت میں فرد کے پاس ہو، چاہے کسی فرد کے پاس اس کے مساوی سونے یا چاندی کے مطابق اتنی رقم کی کوئی شے ہو تو اس پر قربانی فرض ہو جاتی ہے، حالانکہ یہ قدیم فقہی تعبیر ہے اور موجود صورتحال میں مضحکہ خیز بھی ہے۔ آج کل مناسب سا بکرہ بھی اڑتیس ہزار روپے سے زائد آتا ہے اور انسانی ضروریات اور انسان کی ہئیت ماضی کے عہد کے انسان کی ضروریات سے بہت تبدیل ہو چکی ہے۔ آج یہ اڑتیس ہزار روپے والی مالیت کا فارمولہ بھی قابل عمل نہیں ہے۔

آخری بات: جو قربانی کی استطاعت رکھتے ہیں وہ شوق سے قربانی کریں، جن کو واٹر کولر یا کسی غریب کی بیٹی کا جہیز بنانا ہے وہ سب کریں۔ مگر خدارا ان معاملات کی تقابلی بحث نہ کریں۔ اور قربانی جو صاحب استطاعت پر ہے اس کے لئے ایسے عجیب و غریب قصائد و کہانیوں سے بھی پرہیز کریں، کیونکہ ہمارے ملک میں کئی لوگ بمشکل روٹی پوری کرتے ہیں۔

نوٹ: امام جلیبی بکروں کی قیمت دیکھ کر اپنی کتاب "المہنگائی العظیم" میں عربی میں یوں رقم طراز ہیں جس کا اردو ترجمہ غالبا یہ بنتا ہے کہ

"نہ بکرا، نہ واٹر کولر، میں تے ہونڈا ہی لے ساں۔ "

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat