Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Arab Mein Moseeqi Ki Tareekh (1)

Arab Mein Moseeqi Ki Tareekh (1)

عرب میں موسیقی کی تاریخ (1)

عرب کو ہمیشہ ہمارے ہاں مخصوص تہذیبی نگاہ سے ہی دیکھا گیا، جبکہ عرب کئی قدیم تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے، عرب اسلام سے قبل تو کیا عیسائیت سے قبل بھی موسیقی سے واقف تھے۔ عرب موسیقی کی تاریخ کو کئی اہم ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

قبل از مسیح عرب موسیقی:

عیسوی دور سے قبل تک عرب تہذیب کے بارے میں زیادہ تاریخ موجود نہیں ہے، لیکن جو کچھ دنیا تک پہنچا ہے، اس سے عرب تہذیب اور دیگر تہذیبوں پر اس کی برتری کا انکار نہیں ہو سکتا۔ پہلے ہزار سال قبل مسیح میں واپس جائیں تو معلوم ہوگا کہ اس وقت کے عرب ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے، جس کے مطابق جزیرہ نما عرب کے جنوب میں عرب شہروں کے نشانات کے ساتھ ساتھ بابل اور اسوری کے آثار بھی پائے جاتے تھے۔ نوشتہ جات قدیم عرب تہذیب کے بارے میں معلومات کے موجود ہونے کے باوجود، موسیقی کا موضوع اس دور سے مبہم ہی رہا، یہاں تک کہ عربی موسیقی کا پہلا نشان سترھویں صدی قبل مسیح میں بنی پال کے ایک نوشتہ پر پایا گیا، وہ نوشتہ ظاہر کرتا ہے کہ عرب اسوریوں کے قیدی ایک گانا گا رہے تھے، یہی نہیں بلکہ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قدیم عربوں میں موسیقی کا تعلق مذہبی رسومات، شاعری اور جادو سے تھا اور اسے عربی نسل کے آلات موسیقی کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا، جس کا اثر پڑوسی تہذیبوں تک پہنچا، جن میں سب سے اہم موسیقی کی انداز بھی تھے۔ میسوپوٹیمیا کے باشندے، یونانی اور عبرانی تہذیچوں جو دیکھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے بعض آلات کے نام عربی کے ناموں سے اخذ کیے گئے ہیں، اور اس کی ایک مثال لفظ (طبلہ) ہے، جو عبرانی میں داخل ہوا (تبیلا) اور بابل اور اشوریہ کے لوگوں کی زبان (تابولا) کہلایا۔

زمانہ قبل از اسلام (جاہلیہ) میں عربی موسیقی (پہلی صدی سے چھٹی صدی عیسوی تک):

قبل از اسلام دور مکمل طور پر "جاہلانہ" نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ایسی اصطلاح تھی، جسے اہل عرب نے صرف توحید سے نا آشنائی کی وجہ سے "جاہلیہ" کہا گیا تھا، یہ وہ دور تھا۔ جس کا قدیم عرب ورثے کے تحفظ میں اہم کردار تھا، اہل عرب میں صرف عربوں کی اسلام کی تعلیمات سے ناواقفیت کی وجہ سے اسے "قبل از اسلام" کہا جاتا ہے۔ دوسری صدی عیسوی کے آس پاس، جزیرہ نما عرب کا شمال جس میں خاص طور پر شام اور عراق جو ابھی تک سامی ثقافت کے سمندروں میں ڈوبا ہوا تھا، یہاں تک کہ اسلام سے پہلے کے عربوں نے جنوب سے شمال "شام، عراق اور جزیرہ نما عرب" کی طرف ہجرت شروع کر دی، اور اپنے ساتھ وہ چیزیں لے کر آئے، جو ترقی میں معاونت کرتی تھیں یعنی موسیقی بھی، اسی عہد میں حجاز اور مکہ میں موسیقی کی سرگرمیاں ابھریں، اور پوری عرب تہذیب کے سب سے معروف بازار "سوق عکاظ" کی محفلوں کے بارے میں تاریخ میں پڑھا ہوگا، جہاں موسیقاروں اور شاعروں کے باقاعدہ مقابلے ہوتے تھے، اس کے علاوہ مذہبی رسومات کے ساتھ جو خوشی اور بطور معاشی تہوار بھی منعقد کی جاتی تھیں۔ مکہ میں حاجیوں کی طرف سے گانے گائے جاتے تھے، تاہم مذہبی موسیقی عربوں کے لیے اتنی اہمیت نہیں رکھتی تھی جتنی کہ مغرب میں تھی، کیونکہ عرب سب ایک مذہب کے نہیں تھے، اس لیے سیکولر موسیقی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ریی۔

اسلام سے پہلے عربوں کی موسیقی میں انہیں موسیقی کی کمپوزیشن کا علم نہیں تھا، کیونکہ اس وقت موسیقی صرف گانا ہی تھی، جو اس وقت ہر گلوکار اپنے ذوق اور جذبات کے مطابق گاتا تھا۔ جہاں تک موسیقی کے آلات کا تعلق ہے۔ جو اسلام سے پہلے کے دور میں موجود تھے، یہ آلات "الطبل والدف والصنوج والجلاجل" یعنی (ڈھول، دف، گھنگھرو اور جھنکار) اور انسانی پھونک یعنی ہوا کے ذریعے بجائے جانے والے آلات جیسے "المزمار بأنواعه" (ہر قسم کی بانسری) وغیرہ تھے۔ الفارابی کی تاریخ میں ہمیں قبل از اسلام کے دور میں تار والے آلات کے وجود کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے، جن کی نمائندگی اس وقت یہ جنہیں عربی والموتر والبربط تنبور، عود، مظہر (چمڑے کے چہرے کے ساتھ ایک لوٹ)، تار والے ساز کیا جاتا تھا، اسی کی ایک شکل (العود الفارسي) فارسی بربری بھی ہوتی تھی۔ اس وقت ایک گلوکار میں جو خصوصیات ہونی چاہئیں وہ تھیں آواز کی خوبصورتی، اس کی تان، اور وہ احساس جو آواز کو مسلسل اور بے ترتیب بناتا ہے۔

قبل از اسلام موسیقی کے قابل ذکر لوگوں میں، ہم عدی بن ربیعہ کا ذکر کرتے ہیں، جن کا عرفی نام المهلهل اور العیشہ ہے، جسے عربوں کے جھانجھ کے نام سے موسوم کیا گیا، کیونکہ وہ جزیرہ نما عرب میں گھومتے پھرتے، شاعری کرتے اور جھانجھ بجاتے تھے۔ عرب خواتین کا اسلام سے پہلے موسیقی میں بھی ایک کردار تھا، جیسا کہ قبائلی خواتین گانے گاتی تھیں، رقص کرتی تھیں اور آلات موسیقی بجاتی تھیں، اور وہاں اس کام سے منسوب "قیان" طبقہ تھا۔ جو مالدار اور قبائلی رہنماؤں کے گھروں میں رہتا تھا اور گایا کرتا تھا۔ ان میں آلات موسیقی اور قایان کا مالک ہونا عربوں کے لیے باعث فخر تھا۔ ہم نے زمانہ جاہلیت کی مشہور خواتین گلوکاروں میں سے بنی عد کی قینات الخنساء میں سے طاد اور تمد اور ام حاتم الطائی ہند بنت عتبہ کا ذکر کیا ہے۔ جو سفر کے بوجھ کو کم کرتی تھیں۔ اپنے قبیلے قریش کے جنگجوؤں کے لیے جنگی گیت گا کر اور مرنے والوں پر نوحہ خوانی کرنے کا کام بھی انہی کا تھا۔

اسلام اور موسیقی:

یہ واضح ہے کہ نئے مذہب "اسلام" نے جزیرہ نما عرب میں عربوں کی زندگیوں میں تبدیلیاں لائیں، جس کا آغاز اسلامی تہذیب کے گہوارہ حجاز سے ہوا، خاص طور پر وہ تبدیلیاں جو موسیقی میں واقع ہوئیں۔ قرآن مجید میں موسیقی کی ممانعت کا کوئی ثبوت نہ ہونے کے باوجود اجتہاد بعض اوقات موسیقی کی ممانعت اور دوسرے اوقات میں اس کی اجازت دیتا رہا۔ کئی عرب محققین کا ماننا ہے کہ موسیقی اور گانے کی ممانعت کا تعلق شراب پینے اور تفریحی محفلوں کی ممانعت سے تھا۔ جس میں موسیقی کی جاتی تھی، لیکن دوسری طرف آپ کو بہت سارے واقعات سیرت نبوی میں واضح ملتے ہیں کہ موسیقی سے تعلق رکھنے والی قینات یا ان لونڈیوں کو جو حضرت عائشہ کے گھر آیا کرتی تھیں، ان کو رسول اللہ ﷺ سنتے تھے۔

اس موضوع پر آراء مختلف ہیں، اور یہ اس وقت میری بحث کا موضوع بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ بتانا کافی ہے کہ اسلام نے اپنی نئی تعلیمات کے ساتھ موسیقی کو نئے مراحل کی طرف گامزن کیا اور ایک فکری مباحث ہے، کہ جیسے دوسرے مذاہب میں بھی دعائیں یا عبادت کے لیے ندا مخصوص لے کے ساتھ ادا کی جاتی تھی، اذان بھی ان تبدیلیوں میں سے ایک تھی، مدینہ میں عرب فارسی قیدیوں کے ساتھ گھل مل گئے، اور عربی موسیقی اس مرحلے سے فارسی موسیقی سے متاثر ہونے لگی، اور گانے کی صنعت عرب مردوں تک پہنچی، اور ان میں سب سے پہلے اور سب سے مشہور گلوکار طویس تھے۔ جہاں تک موسیقی کے آلات کا تعلق ہے، جو ابتدائی اسلام کے دور میں استعمال ہوتے تھے، وہ وہی ہیں جو قبل از اسلام میں استعمال ہوتے تھے۔

اموی دور (سنہء 661 تا سنہء 750) میں موسیقی:

رسول اللہﷺ کے وصال کے بعد خلفاء اربعہ کے دور کے آغاز میں (632-661 عیسوی) تک، موسیقی پر ابتدائی یعنی خاص طور پر دو خلفاء حضرت ابو بکر الصدیق اور حضرت عمر کی طرف سے ایک حقیقی روک ٹوک اور ممانعت دیکھنے میں آئی، لیکن تاریخی مصادر کے مطابق حضرت علی اور حضرت عثمان کے دور میں موسیقی اور غناء کے معاملے میں کافی آسانیاں نظر آتی ہیں، ان کے دور حکومت میں عربوں اور غیر عرب مسلمانوں کے درمیان سماجی زندگی کے پہلو بدل گئے، اور اس طرح موسیقی کی حوصلہ افزائی نظر آئی، اس کے بعد جب خلافت بنو امیہ کے پاس گئی تو امویوں نے خلافت کے دار الحکومت دمشق میں خوبصورت ترین محلات تعمیر کرائے اور گانے بجانے کو محض غلاموں کی نوکری سے لے کر اعلیٰ سماجی عہدوں کے حامل وفاداروں کے کام کی طرف منتقل کر دیا گیا، جو خلیفہ کے محلات میں داخل ہو گئے۔ اس وقت موسیقی سے وابستہ افراد کو بے شمار تحائف اور انعامات سے نوازا گیا۔

عرب سلطنت کے مشرق میں ہندو پہاڑوں اور مغرب میں بحر اوقیانوس تک پھیلنے کا اثر عربی موسیقی پر بھی پڑا، کیونکہ یہ یونانی موسیقی کے نظریات اور فارسی موسیقی کی خصوصیات سے متاثر تھی، اور یہ اثرات دنیا میں نظر آتے ہیں۔ عربی موسیقی کی دھنیں آج تک۔ ہم ان سر اور تالوں میں سے سنتے ہیں، اموی دور میں بڑے پیمانے پر جو موسیقی کی اصطلاحات معروف خفيف الرمل (8/10)، وخفيف الثقيل (8/6) تھیں، اموی دور میں سب سے نمایاں عرب گلوکاروں میں سائب خائر اور خواتین میں عزة الميلاء اور جمیلہ شامل تھیں۔ اس کے علاوہ فضل ابن مسجع کو کیسے بھولا جا سکتا ہے، جو قدیم عربی موسیقی کے باپ کے طور پر جانے جاتے ہیں، جنہوں نے سریلی آواز کو متعارف کرایا۔ ایجادات اور بجانے، گانے، اور کمپوزنگ کے لیے بنیادیں اور نظریات قائم کیے، ان کے بعد گلوکار اور موسیقار، جیسے ابن سریج اور ابن محرز ان کے نقش قدم پر چل پڑے، قابل غور بات یہ ہے کہ اموی دور میں انہوں نے "النغم" اور "القیان" کتابیں لکھیں، جن کے مصنف یونس نے بعد میں موسیقی کی فکری تحریک کے آغاز کی راہ ہموار کی۔

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam