Arab Mein Asa Ki Riwayati Hesiyat
عرب میں عصا کی روایتی حیثیت
جیسے برصغیر میں آپ بوڑھے یا ضعیف افراد کو چھڑی کے رواج کے ساتھ دیکھتے ہیں، بلکہ مخصوص قبائل میں یا دیہی زندگی میں، آپ کو بزرگ یا قابل عزت افراد کا کسی محفل میں چھڑی کے ساتھ موجود ہونا ایک فخر یا عزت کا نشان بھی سمجھا جاتا ہے، اہل عرب میں بھی چھڑی، کا رواج بزرگوں اور عمائدین میں موجود ہے۔ سعودی عرب میں چھڑی کے لیے عموما دو الفاظ العصا، اور المشعاب، زیادہ معروف ہیں اور یہ ہنرمندی کی پوری تاریخ کے ساتھ موجود ہے۔
عرب معاشرے کی ثقافت میں المشعاب یعنی چھڑی کی اہمیت، آج سے نہیں بلکہ زمانہ قبل از اسلام سے موجود ہے۔ سعودی عرب غامد اور زھران کے علاقوں میں نہ صرف یہ کہ معمر افراد چھڑی استمعال کرتے ہیں، بلکہ اس کا استعمال ان کے اثر و نفوذ اور طاقت کا پتہ دیتا ہے۔ عرب میں تلواروں کے رقص میں بھی المشعاب سے کام لیا جاتا ہے۔ بلکہ سعودی عرب میں کئی علاقے اس ہنرمندی سے زمانہ قدیم سے جڑے ہوئے ہیں۔
شائد کم لوگ جانتے ہونگے کہ زمانہ قبل از اسلام میں معلوم تاریخ میں، اس کی نسبت اس بن ساعدہ الآیادی کو جاتی ہے۔ اگر عرب کی معلوم تاریخ کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ عالم عرب کا پہلا خطیب قس بن ساعدہ ہے تو غلط نہ ہوگا، قس بن ساعدہ عرب قبل از اسلام خطیبانہ روایات میں سے بہت سے امور کا بانی بھی تھا، جسے بعد از اسلام بھی جاری رکھا گیا، یہ روایات اسی قُس بن ساعدہ کے عطا کردہ ہیں۔
جن میں خطیب کے لیے ضروری تھا کہ وہ مؤثر شخصیت، بلند آواز، سلیقہ مند، باوقار اور خوبصورت وضع قطع کا حامل ہو، خطیب سر پر عمامہ اور ہاتھ میں لاٹھی، عصا یا کمان رکھے، دوران خطبہ تلوار کا سہارا بھی پہلی بار اس نے ہی لیا تھا، اور کسی بلند جگہ یا ٹیلے پر کھڑا ہونا بھی، اسی کا طریقہ تھا، تاکہ اس کی آواز دور دراز تک جائے، اور لوگ اس کو دیکھ بھی سکیں۔ خطیب کے حُسن کلام کا معیار اس وقت بڑا کڑا تھا۔
دورانِ کلام کھانسنا، کھنکارنا، ادھر اُدھر دیکھنا، کوئی تکیہ کلام استعمال کرنا (استعانت اور مدد کا مفہوم رکھتا تھا) جوکہ باعث شرم سمجھا جاتا تھا۔ قس بن ساعدہ نے ہی سب سے پہلے اپنے خطبے کے آغاز میں"اما بعد" کہنے کی روایت بھی انہوں نے ہی ڈالی۔ جنہیں بعد میں اسلام میں بھی تسلسل ملا۔ غالباً قبل از اسلام کے سب سے بڑے قبائلی جو اسلام سے پہلے دین حنیف سے تعلق رکھنے والے قُس ابن ساعدہ الآیادی تھے۔
ان کا طویل ذکرِ خیر ملتا ہے، ابن قتیبہ نے ان کو آیات اللہ پر ایمان رکھنے والا عرب کا حکم قرار دیا ہے، اور بتایا ہے کہ محمد عربی ﷺ نے ان کو بعثت سے قبل عکاظ میں ایک سرخ اونٹ پر خطبہ دیتے دیکھا تھا، حضرت ابوبکرؓ ان کے قصے بیان کرتے اور اشعار سناتے تھے۔
حوالہ: (ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، 2/234)
آج کل مساجد میں دوران خطبہ منبر پر جو عصا کا رواج ہے، جسے اکثر سنت رسول اللہﷺ کہا جاتا ہے، اصلا اس کی نسبت اسی قُس ابن ساعدہ ایادی سے ہی ہے۔ جس نے عصا کو مذہبی روایات میں اتنا معتبر کر دیا۔ یاد رہے کہ قُس ابن ساعدہ الآیادی کا انتقال رسول اللہﷺ کی نبوت کے اعلان سے پہلے ہوگیا تھا۔