Arab Aur Oont
عرب اور اونٹ
صحرا، اونٹ، کھجور کے درخت جب بھی ذہن میں آئے تو عرب کا کلچر ضرور آنکھوں کے سامنے آئے گا، عرب اسے صحرائی سفینہ بھی کہتے ہیں، عربوں کی ثقافت میں اونٹ ایک اہم حصہ ہیں۔ ماضی میں اونٹوں کو عربوں کے لئے خدا کا تحفہ کہا جاتا تھا، کیونکہ ان جانوروں نے ان صحراوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگی کو ممکن بنایا تھا، نقل و حمل سے لے کر، کپڑے (کھال) اور یہاں تک کہ کھانے میں اس کا گوشت اور دودھ بھی اسی کے زریعے ہی مہیا کیا جاتا تھا۔ قدیم عرب کی آج تک کی کئی روایتی ڈشیں دودھ اور گوشت آج تک عربوں میں زندہ ہے، اور اونٹوں سے محبت بھی ان کے خون میں آج بھی بس رہی ہے۔
ماضی قدیم سے ہی صحرائے عرب خصوصا ًاہل حجاز میں اونٹ کا مالک ہونا کسی شخص کی امارت یا مالی حیثیت کا تعین کرتا تھا، لین دین، کاروبار کی نقل و حمل، کھانے کے وسائل کے علاوہ مختلف معاہدوں میں اونٹ کو ہی قصاص، جرمانے، ہدیہ جیسے معاملات کے لئے طے کیا جاتا تھا۔ عرب خطے میں اونٹوں سے کام لینے کے علاوہ اس کا ذکر عام گفتگو اور بول چال میں بھی ہوتا ہے۔ اہل عرب میں شائد ہی کوئی ماضی کا شاعر ہو، جس کے قصیدوں میں اونٹ کا تذکرہ نہ ہو۔
امراؤ القیس کے سبعہ معلقات میں بھی اونٹ کا تذکرہ رہا، بلکہ ہمارے ہاں اکثر عربی زبان کے حوالے سے اونٹ کے ناموں کا تذکرہ ملتا ہے، عربی زبان میں اونٹوں کے لیے کئی لفظ رائج رہے ہیں اور اونٹ کو محاورات، کہاوتوں، مثالوں، حکایتوں اور کہانیوں میں بھی اس کی مختلف عادات، صفات اور خصوصیات کی وجہ سے موضوع بنایا گیا ہے۔ یقینا یہ کوئی بہت منفرد بات نہیں ہے، کیونکہ دنیا کے دوسرے حصوں میں اور دوسری زبانوں میں بھی جن چیزوں کے ساتھ لوگوں کا تعلق زیادہ ہوتا ہے ان کے نام بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
عربی میں نر، مادہ اور لمبے یا نسبتاً چھوٹے قد والے اونٹ کے لیے الگ الگ الفاظ ملتے ہیں۔ اسی طرح کوہان، بالوں اور ان کی رنگت کے لحاظ سے بھی عربی میں اونٹوں کے مختلف نام ہیں۔ عمر کے اعتبار سے، رنگ کے اعتبار سے، قد کاٹھ کے اعتبار سے، طاقت کے اعتبار سے، رفتار کے اعتبار سے۔ جیسے جیسے کسی اونٹ کی خصوصیت بدلتی ہے، تو اس کے لیے عرب کوئی نیا نام تجویز کر لیتے تھے۔
عربی میں اونٹ کو عام طور پر ہم لفظ جمل سنتے ہیں اس کے علاوہ میں نے یہاں پر اونٹ کے لئے لفظ ابل، اور بعیر، بھی سنا اور پڑھا ہے، اس کے علاوہ یہ سب نام بھی اونٹوں کے لئے ملتے ہیں، حتی کہ قرآن میں متعدد مقامات پر اونٹ کا ذکر موجود ہے، مفسرین قرآن کے مطابق قرآن میں اونٹ کا ذکر 13 یا 11 مختلف ناموں (مختلف مفسرین میں اس پر اختلاف ہے) سے کیا گیا ہے۔ اس جانور کے لیے ناقہ کا لفظ سب سے زیادہ استعمال ہوا ہے، جو بطورِ خاص حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن میں اونٹ کے لیے 11 مختلف لفظ برتے گئے ہیں۔
الجمال: نر اونٹ
الناقہ: اونٹنی
صائل: طاقتور اونٹ
حفض: بوجھ اٹھانے والا اونٹ
الملواح: وہ اونٹنی جو جلد پیاسی ہو جاتی ہے
الہامل: آوارہ اونٹ
اللقحہ: چار ماہ کی حاملہ اونٹنی
العشرا: اونٹنی جس کا چھ ماہ کا بچہ ہو
المضیرہ: وہ اونٹی جو دوسروں کو بچوں کو دودھ پلاتی ہو
النحوس: وہ اونٹنی جو اپنا دودھ دوہنے نہیں دیتی
الجفول: وہ اونٹ جو جلدی ڈر جاتا ہو
الشرود: وہ اونٹ جو مالک سے بھاگ جاتا ہو
الثاوی: وہ اونٹ جو کمزوری کی وجہ سے کھڑا نہ ہو سکتا ہو
الاشعل: سفید اونٹ جس کی دم رنگین ہو
ادم: سفید اونٹ
یہ تمام نام تو صرف قرآن میں اونٹ کے لئے استعمال ہوئے جب کہ زمانہ قدیم میں شعراء نے بھی مختلف ناموں کو اپنے اشعار میں اونٹ کے لئے استعمال کیا ہے۔
عرب میں ایک وقت وہ تھا کہ جب گاڑیوں کا کوئی وجود نہ تھا اور مقامی لوگ تو اونٹوں کے عادی تھے مگر بعد از اسلام پوری دنیا کے لوگ حج بیت اللہ کے فریضے کے لئے بہت صعوبتوں سے حجاز پہنچتے تھے، مالدار عازمین حج ہی ٹرانسپورٹ کے واحد وسیلے کے طور پر اونٹ پر سواری کیا کرتے تھے۔ جہاں تک غریب عازمین کا معاملہ تھا، تو وہ پیدل چل کر ہی حج کیا کرتے تھے۔ مناسک حج کے لئے جدہ بندرگاہ سے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، عرفات، مزدلفہ اور منیٰ کا سفر اونٹوں کے ذریعے طے پاتا۔
سعودی ریاست کے قیام کے بعد اس زمانے میں اونٹوں کے انتظامات کرنے والا باقاعدہ ایک ادارہ ہوتا تھا، اونٹ لانا اور انکی دیکھ بھال کرنا اس کے ذمہ تھا۔ اسکے تحت ایک گروپ ہوا کرتا جو اونٹوں پر سامان لاد نے کا اہتمام کرتا۔ 1352ھجری کے دوران جدہ سے مکہ مکرمہ اور عرفات، مزدلفہ و منیٰ کے لئے اونٹوں سے سفر کے کرائے ریاستی سطح پر متعین کئے گئے تھے، سیکریٹری خزانہ نے 19 ذی قعدہ 1352ھجری کو اس وقت کے معلمین کے سربراہ کے نام خط تحریر کرکے اونٹوں پر سواری کی فیس مقرر کی تھی۔ بعد ازاں حج ٹرانسپورٹ میں گاڑیوں کا اضافہ ہوا۔
بسوں کے ذریعے حجاج کی منتقلی منظم شکل میں کی جانے لگی۔ بسوں کی جنرل سنڈیکیٹ قائم ہوئی۔ اسکا فیصلہ 3 رجب 1372 ھجری کو کیا گیا تھا۔ اس وقت بسوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی۔ یہ بسیں اتنی نہیں تھیں کہ تمام حاجیوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرسکیں۔ سعودی معیشت کو جب پیٹرول کا سہارا ملا تب حج ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھنے لگی، اور 1416ھجری کے دوران بس شٹل سروس متعارف کرائی گئی۔ اس کے بعد تو عربوں کے پاس دنیا پھر کے جدید ترین زرائع نقل و حمل آگئے۔
خطہ عرب سے تیل نکلنے کے بعد عربوں کی معاشی حالت بہتر کیا بہترین ہوگئی، مگر ان کی اپنی ثقافت سے رچی بسی صدیوں کی محبت کم نہ ہوئی، اس جدید دور میں بھی جب نقل و حمل سے لے کر غذائی اجناس تک اونٹ سے انحصار کم ہونے کے باوجود اونٹ سے عربوں کا تعلق ویسے ہی قائم نظر آتا ہے۔ سعودی عرب ہو یا متحدہ عرب امارات یا کویت، آج بھی اونٹوں کو ویسے ہی پالا جاتا ہے، وقت کے ساتھ اب اونٹوں کے دوڑ کے باقاعدہ نیلے اور مقابلے ہوتے ہیں، خوبصورت اونٹوں کے مقابلے حتی کہ جیسے دنیا بھر میں بیلوں کی لڑائی مشہور ہے۔
لاکھوں لوگ یورپی ممالک خصوصاً سپین میں بیلوں کے درمیان مقابلے دیکھتے رہتے ہیں، لیکن کبھی کہیں بھی یہ سننے میں نہیں آیا کہ اس قسم کی کوئی لڑائی اونٹوں کے درمیان ہوئی ہو یا کسی قوم یا قبیلے نے اونٹوں کے درمیان لڑائی کا مقابلہ منعقد کرایا ہو۔ مگر سعودی عرب میں اونٹوں کی لڑائی کا مقابلہ ہوچکا ہے۔ لیکن سپین میں بیلوں کے درمیان ہونے والی لڑائی اور سعودی عرب میں اونٹوں کے درمیان ہونے والی لڑائی کے مقابلے میں فرق یہ ہے کہ بیلوں کی لڑائی میں خون بہتا ہے۔ لیکن سعودی عرب میں اونٹوں کی لڑائی خونریزی سے پاک ہے۔
سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار شاہ عبدالعزیز کیمل میلے میں اونٹوں کے درمیان لڑائی کا انتظام کیا گیا ہے۔ یہ میلہ پوری دنیا میں اونٹوں کے شائقین کے لیے سب سے بڑا میلہ مانا گیا ہے۔ سعود ی عرب میں اونٹوں کی لڑائی کا مقابلہ اپنی نوعیت کا پہلا مقابلہ ہے۔ اس کا انتظام کنگ عبدالعزیز کیمل میلے کی انتظامیہ نے کیا ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ میلے میں موجود کسی ایک شخص پہلوان کا مخصوص طریقہ کار کے مطابق انتخاب کیا جاتا ہے۔ منتخب شخص اکھاڑے میں پہنچا دیا جاتا ہے، جہاں دو سالہ اونٹ موجود ہوتا ہے۔ اس کے لیے سپیشل اکھاڑے تیار کیے گئے ہیں۔
مقابلے کے دوران کوئی وہ پہلوان ایک منٹ کے لیے اونٹ سے داو آزماتا ہے۔ اگر وہ اونٹ کو مقررہ وقت کے اندر بچھاڑنے میں کامیاب ہوجائے تو اسے کامیاب قرار دے دیا جاتا ہے اور مقابلے میں ہارنے والا اونٹ اس کا ہوجاتا ہے اور اگر وہ مقررہ وقت کے دوران اونٹ کو گرانے میں کامیاب نہ ہو تو اونٹ کا مالک فاتح قرار ہوتا ہے اور کسی اور پہلوان کا انتخاب ہوتا ہے اور اسے اونٹ کو گرانے کے لیے 25 سیکنڈ سے کم کا وقت دیا جاتا ہے۔ اگر وہ اس چیلنج پر پورا اترتا ہے تو بڑے ایوارڈ کا حقدار بن جاتا ہے۔
اسی ماہ ہونے والے اونٹوں کے مقابلے کنگ عبدالعزیز کیمل میلے میں ہورہے ہیں۔ یہ میلہ پوری دنیا میں شریک اونٹوں کی تعداد اور میلے کے رقبے کے حوالے سے سب سے بڑا اور عوامی مقبولیت کے حوالے سے سب سے منفرد ہے۔ ہر سال یہ میلہ 225 کلو مربع میٹر کے رقبے میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اس میں 4 ارب ریال مالیت سے زیادہ کے اونٹ لائے گئے ہیں۔ اونٹوں کے ساتھ لڑائی کا مقابلہ بھی بے حد مقبول ہوگیا ہے۔
پچھلے ماہ کنگ عبدالعزیز فیسٹول ریاض کے شمالی صحرا النفود الدھنا کے جنوبی مقام الصیاھد پر ہونے والے تیسرے ایڈیشن میں "عرنون" نامی اونٹ کو دنیا کا سب سے مہنگا اور مشہور اونٹ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی قیمت اب 200 ملین ریال سے زیادہ ہے۔ عرنون، کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں دنیا کا مہنگا ترین اونٹ کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ سعودی عرب کے تمام علاقوں، خلیجی ملکوں میں امارات، کویت، بحرین اور سلطنت عمان سے اونٹوں کے شائقین بڑی تعداد میں پہنچے ہوئے تھے۔
اونٹوں کا میلہ دیکھنے کے لیے آنے والوں میں عوام کے علاوہ غیر ملکی سرکاری وفود، انتہائی اہم شخصیات اور اونٹوں کے مالکان شامل رہے۔ آج کل، اونٹ مقامی ثقافت کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ سیاحوں کے سواری کے لیے بھی ایک خاصا پرکشش ہیں۔ اس کی دوڑ کی ریس متحدہ عرب امارات میں بھی ہر سال ہوتی ہیں، سعودی عرب کے شہر "القصیم" میں دنیا کا سب سے بڑا اونٹوں کا ہسپتال بھی موجود ہے اور متحدہ عرب امارات میں بھی اونٹوں کے بہت پر تعیش ہسپتال موجود ہیں، اونٹ عربوں کے لئے گئے زمانوں کے ثقافت اور زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ تھا اور آج بھی ہے۔