Friday, 18 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Ahl e Hijaz Mein Ramzan Ke Chand Dekhe Ka Tareekhi Jaiza

Ahl e Hijaz Mein Ramzan Ke Chand Dekhe Ka Tareekhi Jaiza

اہل حجاز میں رمضان کے چاند دیکھنے کا تاریخی جائزہ

ہم اہل حجاز کو تاریخی منظر سے ہی عمومََ دیکھتےہیں، اور ہمیشہ مذہبی واقعات میں ہم ترقی سے پہلے کے قصوں سے مخصوص تخیل بنالیتے ہیں، آج کا حجاز یعنی سعودی عرب جی ٹوینٹی ممالک کی قیادت کررہا ہے، دنیا کے چند بڑے امیر ترین و ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہے لیکن قریب چند دہائیوں پہلے کے سعودی عرب میں اور آج کے سعودی عرب میں بہت فرق تھا، آج رمضان المبارک کے چاند کو دیکھنے کے لئے رویت ہلال اور اس کی اطلاع کے لئے ریڈیو، ٹی وی، سیٹلایٹ چینل، سماجی رابطوں کے وسائل اور علم و الفلک کے جدید ترین آلات سے کام لیا جا رہا ہے۔

ماضی میں باقاعدہ تو نہیں لیکن مکہ کے قریبی شہر طائف کی ایک چوٹی پر ہز ار برس قدیم رصد گاہ اس سلسلے میں موجود تھی، جو آج بھی موجود ہے، لیکن ماضی میں ایسے آلات نہیں تھے، دنیا بھر کے ممالک کے شہری رمضان کا چاند گھروں کی چھتوں یا اونچے مقامات پر جا کر دیکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے اور رمضان کا چاند نظرآنے پر خوشی کے اظہار کے بھی مختلف مقامی طریقے تھے۔ سعودی عرب میں بھی چاند دیکھنے کا رواج ہر شہر، قصبے اور بستی میں تھا سب مل کر روایتی طریقے سے چاند دیکھتے تھے۔

بلکہ سعودی عرب میں مختلف شہروں میں ماضی میں کچھ خاندانوں نے خصوصاََ چاند دیکھنے کی نسبت سے شہرت بھی پائی ہے۔ سعودی عرب میں لوگوں کو چاند دیکھنے کی اعلان یا اطلاع روایتی طریقے سے دیا جاتا تھا، اکثر شہروں میں چاند دیکھنے سے پہلے ہی مقامی لوگ بڑی تعداد میں لکڑیاں جمع کرلیتے اور چاند نظر آنے کے بعد پہاڑ کی چوٹی پرالاؤ روشن کیا جاتا تھا جسے دیکھ کر لوگ سمجھ جاتے تھے کہ چاند نظر آ گیا ہے۔ کچھ بڑے شہروں میں توپ کے گولے سے بھی چاند کی اطلاع دی جاتی تھی۔

اور کچھ بڑے شہروں کے سرداران اپنے نمائندوں کے ذریعے قریبی گاؤں اور بستیوں کے لوگوں کو چاند کی اطلاع پہنچانے کے لئے بھی بھیجتے تھے۔ سعودی عرب میں رمضان المبارک کے چاند کے لئے پہلی بار سعودی ریاست میں سرکاری سطح پر مقامی شہری شیخ محمد عبدالرزاق حمزہ جو علم الفلک سے گہرا شغف رکھتے تھے، نے بانی سعودی عرب شاہ عبدالعزیز کے زمانے میں سنہء 1948 میں رویت ہلال کے لیے پہلی رصد گاہ قائم کرنے کی تجویز دی تھی۔

جسے شاہ عبدالعزیز نے فلکیاتی علوم کے فروغ اور جدید سائنس سے استفادے کی حوصلہ افزائی کے لیے رصد گاہ کے قیام کی درخواست منظور کرلی تھی، اور تب مکہ مکرمہ میں جبل ابو قبیس کی چوٹی پر رصدگاہ قائم کی گئی تھی، اور شاہ عبدالعزیز نے شیخ حمزہ کو رویت ہلال کے لیے ٹیوڈولٹ ٹیلی سکوپ، کورونا میٹر گھڑی، بیرو میٹر اور دوسرے آلات مہیا کرائے تھے۔ ویسے اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں میسان شہر میں کحیلۃ نامی چٹان پر قریب 1200سال پرانی ایک قدیم ترین شمسی رصدگاہ بھی ہے۔

یہ اس خطے کی سب سے پرانی رصد گاہ ہے مگر یہ شمسی رصد گاہ ہے مقامی میسان کے باشندے کحیلۃ شمسی رصدگاہ کے ذریعے اس وقت عربی مہینوں کی شروعات و اختتام اور کاشتکاری کی فصلوں کا تعین کرتے تھے، مزید چاند گرہن اور سورج گرہن کا پتہ لگانے کے لیے بھی کحیلۃ شمسی رصدگاہ پر ہی اس وقت بھروسہ کیا جاتا تھا۔ ستاروں کی گردش پتہ کرنے کا بھی اس وقت یہی ذریعہ تھا، کحیلۃ شمسی رصد گاہ میسان کی ایک ایک اونچی چٹان ہے۔ جس کے شمال میں جبل المروہ نامی پہاڑ واقع ہیں۔

اس کے علاوہ سعودی ریاست "ام القریٰ" عربی و قمری کلینڈر پر بھی چاند کے معاملے پر انحصار کرتے ہیں، ام القر یٰ ایک قمری کیلنڈر جو سعودی عرب کا سرکاری کیلنڈر ہے، اورحج، روزے اور زکوٰة سمیت مختلف مذہبی احکامات کے سلسلے میں ام القری ہجر ی کیلنڈر پر ہی مقامی طور عمل کیا جاتا ہے۔ عوامی سطح پر بھی اسی پر اعتبار کیا جاتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے طول البلد اورعرض البلد کو ام القریٰ کیلنڈر کی اساس مانا گیا ہے۔ جس کے تحت مہینوں کا تعین چاند کی گردش کے حساب سے کیا جاتا ہے۔

اس کیلنڈر میں سال کے موسموں کا تعین بھی سورج کی گردش کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ ویسے تو اسلامی قمری ہجری تاریخ کی شروعات کا آغاز عرب میں اسلام آنے کے بعد خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے کیا تھا۔ جسے پیغمبر اسلام ﷺ کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے ایام سے اسلامی کیلنڈر کی بنیاد قرار دیا تھا۔ رسول ﷲﷺ کا ہجرت کا یہ واقعہ عیسوی اعتبار سے 15جولائی سنہء 622(15th July 622) کو پیش آیا تھا۔

سعودی ریاست نے پہلی بار "ام القریٰ کیلنڈر" سنہء 1927کو مکہ مکرمہ میں سرکاری پریس سےیہ جاری کیا تھا اس کے بعد پھر سنہء 1979سے اس کی باقاعدہ اشاعت دارلحکومت ریاض شہر سے سرکاری پریس سے کی جانے لگی۔ سعودی عرب "ام القریٰ کیلنڈر" کو تکنیکی اعتبار سے بہتر بنانے کے عمل میں رہتا ہے، کیونکہ ام القریٰ کلینڈر کی تیاری کنگ عبدالعزیز سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سٹی کے زیر نگرانی ایک کمیٹی کے پاس ہے، اس کمیٹی میں بیک وقت اسلامی امور کے ماہرین کے علاوہ علم الفلک کے جدید ماہرین کو بھی شامل رکھا جاتا ہے۔

چونکہ سنہء 1999 میں مکہ میں خانہ کعبہ کے طول البلد اورعرض البلد کو ام القریٰ کیلنڈر کی بنیاد قرار دیا گیا تھا تو یہ بھی طےکیا گیا تھا کہ مکہ مکرمہ میں سورج غروب ہونے کے بعد چاند نکلنے کا انتظار کیا جائےگا۔ لیکن اگر کبھی ان القر یٰ کلینڈر کے مطابق چاند نظر نہ آئے تو سعودی عرب میں آج بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق شخصی شہادتوں کو قبول کیا جاتا ہے، اور یہ شخصی شہادتیں کوئی بھی مقامی شہری اپنی قریبی عدالتی مرکز کو اطلاع کے طور پر پہنچا سکتا ہے۔

"ام القر یٰ کلینڈر کی حیثیت سعودی عرب میں آج بھی مستند مانی جاتی ہے، کیونکہ زمانہ قدیم سے تقر یباََ کئی تہذیبوں میں مہینوں اور سالوں کے تعین کے لیے چاند کا ہی سہارا لیا جاتا تھا۔ دنیا میں سب سے پہلے بابلی تمدن نے ہفتے کو سات دنوں میں تقسیم کیا اور قمری مہینوں کو کیلنڈر کی بنیاد بنایا تھا، اس کے بعد ہی چین کی قدیم تہذیبوں نے اور پھر قدیم مصر کی تہذیب کے بعد اہل برصغیر نے اسے ہی اپنایا تھا۔

حتیٰ کہ اسلام سے قبل عربوں کے قمری کلینڈر ہی رائج تھا لیکن قمری کیلنڈر آج تک اتنی قبولیت کا سہرا اسلامی تمدن کے سر ہی رہے گا کیونکہ رمضان کے چاند کے علاوہ عیدین کے تہوار کا بھی چاند دیکھنا بھی اسلام میں ایک مذہبی تہذیبی مظاہر کا حصہ ہے۔

Check Also

Hum Kis Liye Likhte Hain?

By Nasir Abbas Nayyar