Afghan Bachiyon Pe Husool e Taleem Ki Mumaniat
افغان بچیوں پہ حصولِ تعلیم کی ممانعت
افغان طالبان لڑکیوں کو اسکول جانے پر پابندی کیوں لگاتے ہیں؟ جبکہ کئی اسلامی ممالک ایران یا عرب خواتین کو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے دیتے ہیں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ مذہب کے نام پر انہیں پڑھنے سے روکتے ہیں؟
یہ افغان ثقافت اور اسلام کی مقامی خطے کے مولوی کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کی وجہ ہے، جو سخت گیر انداز اختیار کرتی ہے۔ افغان اپنی قدیم روایات سے عورت کو اپنے سماج میں ایسے ہی دیکھتے ہیں، اور یہ ثقافتی اقدار کو ہی مزہبی اقدار میں ڈھال لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کی روک تھام پر خواتین کے معاملے پر تمام طالبان رہنما اس فیصلے سے متفق نہیں ہیں، لیکن افغانستان کے موجود حکمران یہ فیصلہ کردیتے ہیں تو ان کی بات حتمی ہوتی ہے۔ پرائمری اسکول کے بعد 6 ویں جماعت پاس کرنے والی لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ موجود حکومتی افراد کی مذہبی تفہیم میں وہ بلوغت کے آغاز پر ہیں، اور افغانستان میں بلوغت کی خواتین کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے اور اگر وہ ایسا کرتی ہیں، تو انہیں ان کی حفاظت کے لیے ایک مرد سرپرست یا محرم کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے کہ ان کا بیٹا، بھائی، شوہر اور باپ وغیرہ۔
اگرچہ موجود حالات میں لڑکیوں کو یونیورسٹی میں جانے کی اجازت دی جاتی ہے تو مرد اور خواتین کے درمیان ملنے پر سخت پابندی ہوگی، تاہم اس کے باوجود افغان اعلیٰ تعلیم کے وزیر اب بھی اسے مخلوط ہی سمجھتے ہیں، (اگر مرد و زن اعلی سطح ک تعلیمی سہولت میں شریک ہوں)۔ علاوہ ازیں دیگر وجوہات بھی ہیں، ان کے نزدیک اسکول یا کالج یا یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے کچھ مضامین اسلام اور افغان عزت کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں، (مثال کے طور پر زراعت اور انجینئرنگ وغیرہ)، اور یہ کہ لڑکیوں کے لئے وہ سمجھتے ہیں کہ مناسب لباس کوڈ کی پابندی نہیں ہوتی، مثال کے طور پر حجاب کو صحیح طریقے سے نہ پہننا وغیرہ)۔ افغانستان کے امیر، ہیبت اللہ اخوندزادہ اور باقی افغان انتظامیہ کا موقف ہے کہ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پچھلی انتظامیہ سے ورثے میں ملنے والے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی۔ ان کا الزام ہے کہ لوگ قواعد پر عمل نہیں کر رہے تھے اور یہی وجہ نے انہیں یونیورسٹی پر پابندی کا جواز دیا ہے۔
یہ ہرات میں لڑکیاں اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کا مطالبہ کرنے کے لیے ایک مظاہرے کے لیے جمع ہیں۔ یہ بہرحال خوش آئیند ہے کہ اب کسی درجے میں خواتین اپنی آواز پہنچا لیتی ہیں۔ ویسے بھی یہ تو واضح ہے کہ ہم سب لوگ اور جو لوگ ان کے پاکستان میں ترجمان بنتے ہیں وہ واقعتا اور واضح طور پر تعلیم کے وزیر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی مجموعی طور پر طالبان کی طرف سے فراہم کردہ بیانات اور زمینی حقائق کے تضادات کو نبھی بخوبی جانتے ہیں۔ یعنی اگر آسان لفظوں میں یہ کہہ دیا جائے کہ اب آپ اس میں کوئی شک نہیں کرسکتے ہیں کہ افغانستان میں کم ازکم ان کے دور حکومت تک لڑکیوں کو یونیورسٹیوں تک رسائی سے محروم ہی رکھا جائے گا جب تک ملک پر طالبان کا کنٹرول رہے گا، اور جب بھی اس پر سوال اٹھایا جائے گا طالبان مختلف جواز فراہم کرتے رہیں گے، پھر بھی بنیادی سچائی واضح رہے گی کہ وہ خواتین کی تعلیم اور ملازمت کی مخالفت کرتے ہیں۔
وہاں کی مقامی ثقافت اور مذہبی تشریحات ان کو یہی سمجھاتی ہیں کہ بلوغت تک پہنچنے کے بعد افغان لڑکیوں کو عموماً گھریلو کردار تک محدود کر دیا جاتا ہے، جن میں تعلیم تک رسائی نہیں ہوتی اور روزگار کے محدود امکانات ہوتے ہیں۔ اپنے گھر چھوڑنے کی ان کی اہلیت اکثر مرد سرپرست کی موجودگی اور منظوری سے مشروط ہوتی ہے۔ یہی موقف ایک افغان خاتون کی عام زندگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک افغان معاشرے کی تفہیمی مذہبی تعلیمات کا حصہ ہے کیونکہ خواتین کو گھر میں رہنا اور بچے پیدا کرنا ہوتے ہیں۔ انہیں کام اور تعلیم کی تلاش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ معاشرے میں مردوں کو گناہ کرنے کا باعث بنتی ہے۔
نوٹ: کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہمارے ہاں اور ہمارے قریبی معاشروں میں خواتین یا علم حاصل کرنے کے حوالے سے جو روئیے ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں جیسے بنوں میں پروفیسر سے نظریہ ارتقاء اور عورت کی تعلیم کے حوالے سے سیمینار میں کی جانے والی گفتگو پر جس طرح معافی منگوائی گئی، کل تک مغرب میں بھی یہی تصورات قائم رہے تھے
۔ جیسے سنہء 1869 میں لندن یونیورسٹی نے اپنی پہلی خاتون کو گریجویشن کا ٹائٹل ملا، لیکن اس خاتون کو پہلے داخلے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
- جیسے سنہء 1865 میں الزبتھ گیرٹ اینڈرسن برطانیہ کی پہلی خاتون بن گئیں جنہوں نے پہلی بار اپنے امتحانات پاس کرتے ہوئے، Worshipful Society of Apothecaries کے داخلے کے عمل میں ڈاکٹر کے طور پر کوالیفائی کیا تو اس خاتون کے بطور ڈاکٹر ایک خامی سمجھا گیا اور اس کے لیے تمام ہسپتال کے دروازے بند کر دیے گئے کہ کوئی بھی ہسپتال اسے بطور ڈاکٹر قبول نہیں کرے گا، بشمول ویسٹ منسٹر اور اس وقت کے چیئر آف میڈیسن ڈاکٹر بشام نے اسے سنہء 1861 میں ہسپتال کے سکول میں پڑھنے کے لیے داخلے سے انکار کر دیا تھا۔
سنہء 1962 تک آسٹریلیا میں خواتین جائیداد نہیں خرید سکتی تھیں، بنک اکاؤنٹ قانونی طور پر خواتین کے نام سے نہہں کھلوایا جاسکتا تھا سنہء 1967 تک میراتھن میں خواتین کی شمولیت ممکن نہیں تھی پہلی بار سنہء 1967 میں اجازت ملی تھی۔
افغانستان کی صحت و تعلیم کے لئے پچھلے بیس سالہ ادوار کا جائزہ لیا جائے تو بہت حیرت انگیز ہے۔ سنہء 2021 کے بعد جب امریکا و نیٹو افواج وہاں آئیں، تو افغانستان میں مردوں کی شرح خواندگی کی شرح 30 فیصد تھی اور مردوں کی متوقع عمر 42 فیصد تھی، جب امریکا رخصت ہوا تب مردوں کی شرح خواندگی کی شرح 43 فیصد اور مردوں کی عمر کی شرح 62 فیصد ٹھی۔ ارن 20 برسوں میں خواتین کی تعلیمی شرح 30 فیصدی بڑھی ہے اور صحت کے معاملات بھی خاصے بہتر ہوئے۔ ظاہر ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں ایسا کوئی جائزہ نہیں لیا گیا ہوگا۔ ورنہ سب کو معلوم ہے کہ تنزلی ہی آئی ہوگی۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں ہم کبھی نہیں ماننا چاہتے۔
سوچیں کیا واقعی ہمارے پڑوسی ملک اور اسی فکرکے لوگ ہمارے سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں جو عورت کی تعلیم کو بطور اپنی اقدار اور اپنے من چاہے مزہبی تفہیم سے درست نہیں سمجھتے۔ مجھے معلوم ہے کہ کئی لوگ یہ سمجھائیں گے ایسا کچھ نہیں ہے مگر وہ خود حقائق نہیں ماننا چاہتے حالانکہ وہاں تعلیم ہر حقیقتا پابندی ہی ہے۔