Samina Saadat Ki Sadaa
سمینہ سادات کی صدا

ڈیرہ غازی خان کا خطہ اپنی تہذیبی اور تاریخی حیثیت کے باعث ہمیشہ سے مرکزِ نگاہ رہا ہے۔ یہ علاقہ نہ صرف اپنی جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے بلکہ یہاں کے قصبات و دیہات سماجی، ثقافتی اور تعلیمی حوالوں سے بھی نمایاں شناخت کے حامل ہیں۔ تاہم یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ ترقی و سہولتوں کی تقسیم میں یہ خطہ اکثر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، جس کی تازہ مثال سمینہ سادات جیسے قدیمی قصبے کی الیکٹرو بس منصوبے سے محرومی ہے۔
سمینہ سادات کے ساتھ ساتھ مانہ احمدانی اور خانپور منجوالا بھی اسی سہولت سے محروم ہیں۔ یہ قصبات نہ صرف کثیر آبادی رکھتے ہیں بلکہ روزانہ ہزاروں افراد کی نقل و حرکت انہی راستوں سے وابستہ ہے۔ ایسے میں جب بڑے شہروں کو جدید ٹرانسپورٹ نظام فراہم کیا جا رہا ہے، ان علاقوں کو اس منصوبے سے الگ رکھنا ایک ناقابلِ فہم طرزِ عمل ہے جو عوامی محرومیوں میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔
اہالیانِ علاقہ کی صدائے احتجاج اب محض جذباتی ردِعمل نہیں رہی بلکہ ایک اجتماعی مطالبہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ اور وفاقی وزیر برائے توانائی سردار اویس لغاری جیسے بااختیار شخصیات سے یہ توقع وابستہ ہے کہ وہ عوام کی حقیقی ضرورتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے فوری اقدامات کریں گے۔ کیونکہ آج کے دور میں ٹرانسپورٹ کی سہولت محض آسائش نہیں بلکہ معیشت، تعلیم اور صحت کے ڈھانچے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
ڈیرہ غازی خان کے ممتاز صحافی اور سماجی شخصیت اے ڈی سمینوی کی تجویز نے بروقت اس محرومی کی نشاندہی کرکے حکام بالا کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب یہ وقت کا تقاضا ہے کہ فیصلہ ساز ادارے اس ناانصافی کا تدارک کریں اور سمینہ سادات سمیت تمام محروم قصبات کو الیکٹرو بس کے منصوبے میں شامل کریں۔ بصورتِ دیگر یہ احساسِ محرومی ایک بڑے سماجی انتشار میں ڈھل سکتا ہے جو نہ صرف حکومت کے لیے بلکہ خطے کی ترقی کے لیے بھی ایک رکاوٹ بنے گا۔

