Muhabbat Ke Safeeron Ka Qatal
محبت کے سفیروں کا قتل

یہ عہدِ ستم ہے، جہاں امن کے پیامبر اور محبت کے عَلَم بردار، لہو میں نہلا دیے جاتے ہیں اور ان کے قاتل خود کو تہذیب و غیرت کا عَلَم بردار باور کرواتے ہیں۔ "بانو" اور "احسان اللہ" جیسے پاکیزہ دل، جو روحِ انسانی کی تطہیر کا استعارہ تھے، درندگی کا نشانہ بنے۔ ان دو معصوموں نے جب جبر کے اندھیروں میں قرآن مجید کی روشنی کو پناہ بنایا، تو گویا وہ صرف اپنی محبت کا نہیں، بلکہ انسانیت کے وقار کا دفاع کر رہے تھے۔ ان کی شہادت، الفاظ سے ماورا، ایک ایسا نوحہ ہے جو ہر حساس دل پر نقش ہو چکا ہے۔
ہم نے "کیدو" جیسے کرداروں کو تو افسانوں میں پڑھا تھا، جن کی غیرت محض عورت کے وجود سے چمٹ کر اپنی پیاس بجھاتی تھی، مگر جب "احسان" اور "بانو" کو پہاڑوں کی تنہائی میں گولیوں سے چھلنی کیا گیا، تو بلوچ شناخت کا وہ چہرہ بےنقاب ہوا جسے "غیرت" کا نام دے کر درندگی کی تاویل دی گئی۔
"شیرباز ساتکزئی" جیسے سرداروں نے جس خباثت کا مظاہرہ کیا، وہ نہ صرف انسانیت کی توہین ہے بلکہ تہذیبِ بلوچ کے چہرے پر ایسا بدنما داغ ہے جسے وقت بھی مٹا نہیں سکے گا۔ ان کی غیرت دراصل بزدلی کا وہ لبادہ ہے جو عورت کی محبت سے خوفزدہ ہو کر بارود کی بو سے مطمئن ہوتی ہے۔
تاریخ خاموش نہیں رہے گی۔ جب بھی مستقبل کا مؤرخ قلم اٹھائے گا، تو سب سے پہلے وہ ان پر لعنت بھیجے گا، اس لیے نہیں کہ پوری قوم مجرم ہے، بلکہ اس لیے کہ چند چہروں نے اس شناخت کو نفرت، تشدد اور بےغیرتی سے آلودہ کر دیا۔ پھر وہ مؤرخ محبت کے شہیدوں کا تذکرہ کرے گا، جنہوں نے امن کے دیپ جلائے اور خون سے وفا کی عبارت لکھی۔ "بانو" اور "احسان" تاریخ میں وہ باب ہوں گے جو امر ہوں گے اور "مست توکلی" کی دھرتی، جس نے محبت کا پرچم تھاما تھا، آج اسی کے قاتلوں کی زمین کہلائے گی۔

