Malku Ka Geet Aur Ehle Youth
ملکو کا گیت اور اہلِ یُوتھ
سال 2023ء اختتام کو پہنچے ڈیڑھ ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ ہم نے 2023ء میں کیا کارنامے سرانجام دیے۔ پچھلے سال ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ یہ باتیں ایک طرف رکھتے ہوئے معمول کے موضوعات پر بات کر لیتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل جس کی ذہن سازی حسب معمول ایک اداکار نے کی پاکستانی سیاست اور سماج پر غالب نظر آتی ہے اپنے اندر تعمیر وطن کی بجائے محض شور شرابے پر یقین رکھتی ہے۔
حالیہ انتخابات میں پاکستانیوں نے ان آزاد امیدواروں کو بھی ووٹ دیا جو سونامی کے ذریعے شاید ممکنہ جیت اور انقلاب کے خبط کا شکار تھے اور ووٹرز "جنون" میں مبتلاء تھے۔ ویسے "جنون" کسی بھی سنجیدہ معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ "جنونیوں" کے فیصلے خاندان، قبیلے اور ریاست کے لیے مناسب نہیں ہوتے۔
نسل ہٰذا نے زبان کا ناصرف حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا بلکہ گھٹیا ترین اصطلاحات بھی اس میں شامل کر دی جیسے "وڑ گیا" اور گانے بجانے کے لیے لکھی گئی شاعری میں"قیدی نمبر 804"۔ یہ اصطلاحات فقط مشہور ہی نہیں ہوئی ان کے طفیل آزاد امیدواروں کو ووٹ بھی پڑے۔
اسلاف نے ہمیں تعلیم دی۔ اپنی استطاعت کے مطابق ہماری پسند کے مطابق تعلیمی اداروں میں ہمیں داخلہ دلوایا۔ ہم بجائے اس کے کہ اپنے بزرگوں کا احترام کرتے۔ ان کی مشاورت سے اپنے سیاسی مستقبل کا انتخاب کرتے۔ الٹا خام ذہن لڑکوں نے بزرگوں کو دباؤ میں ڈال کر انھیں بھی سطحی قسم کے سیاسی لیڈر کے آزاد ارکان کو ووٹ کاسٹ کروا دیا۔
کچھ دنوں سے گلوکار ملکو کا گانا سیاسی سطح پر نابالغ لڑکوں کی توجّہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس گانے کے نتیجے میں عمران خان کو چاہنے والوں نے ان کے حمایت یافتہ امیدواروں کو دھڑا دھڑ ووٹ کاسٹ کیے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا سماج مخصوص سیاسی شدت پسندی کا شکار ہو چکا ہے۔
جیل اڈیالا قیدی اٹھ سو چار ہووے
قوم دعا منگدی تینوں کدی وی نہ ہار ہووے
(قوم دعا مانگتی ہے تجھے کبھی ہار نہ ہو)
یہ گانا بھی "ملکو" کے دیگر گانوں کی طرح ناصرف وائرل ہوا بلکہ اسے پاکستان میں انقلاب کی نوید قرار دیا جانے لگا۔ یہ سارا کارنامہ متذکرہ نسل ہی کا ہے۔ ان بچوں کو یہ پتا نہیں کہ اسی "ملکو" نے میاں نواز شریف کے حق میں بھی گانا گایا تھا مگر ان جنونیوں نے قیدی 804 والے گانے کی بنیاد پر گلوکار "ملکو" کو بھی عمران نیازی کا پیروکار قرار دے دیا حالانکہ مظلوم "ملکو" صرف گلوکار ہے۔ اس نے محض سوشل میڈیا سے پیسہ کمانے کے لیے یہ اس قسم کا نیچ گانا گایا تھا۔
اسی طرح موصوف نے میاں نواز شریف کے لیے جو گانا اس سے قبل گایا تھا وہ بھی محض کمائی کے لیے تھا مگر کوتاہ مطالعہ اور سوشل میڈیا کی جنریشن نے تو آسمان سر پر اٹھا لیا۔ بالآخر "ملکو" بے چارے کو حوالات کی ہوا کھانا پڑی۔ اس وقت کا مظلوم "عمران خان" بھی شاید اسی نسل کے کرتوں اور بدزبانی کے باعث جیل میں پڑا حیران و پریشان ہے۔
انھیں یاد دلاتا بلکہ ثبوت دکھاتا چلوں کہ جب ان کے ظلم کا شکار "ملکو" نے نواز شریف کے لیے یہ گانا گایا تھا تو اس گانے سے متعلق ان کا کیا خیال ہے؟
شیر ہوندا شیر، ہووے جیہڑے رنگ دا
نوازشریف مُلک دی خیر منگدا
(شیر شیر ہوتا ہے، خواہ جس رنگ کا بھی ہو، نواز شریف ملک کی خیر مانگتا ہے)
"ملکو" کے گائے اس گیت سے متعلق راقم کے بلاگ پر نامناسب جملوں پر مبنی تاثرات یقیناً "فقیر" کو ملنا شروع ہو جائیں گے کیونکہ غیرسنجیدہ نسل کے مہا لیڈر نے "پانچویں پُشت کی دوغلی ابلاغی جنگ" کے ذریعے ان کی تربیت ہی کچھ ایسی کی ہے کہ آج ان کی جہالت "علم" اور ان کا بولا گیا سفید جھوٹ "سچ" لگنے لگا ہے۔