Maa Ka Fatwa, Bano Beti Ki Lash
ماں کا فتویٰ، بیٹی "بانو" کی لاش

بلوچستان کی دھرتی پر غیرت کے نام پر سانڈوں کی گند سے بھر ناچتے سرداروں نے محبت کو جرم، عورت کو غیرت اور قتل کو فرض بنا دیا۔ ڈیگاری کے افسوسناک واقعے میں "بانو" اور "احسان اللہ" کے قتل نے پوری انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے مگر اس سے بھی زیادہ دل دہلا دینے والی حقیقت وہ ویڈیو ہے جس میں مقتولہ بانو کی ماں ہونے کی دعویدار "گل جان" قرآن اُٹھا کر یہ کہتی ہے کہ چونکہ بانو اپنے چاہنے والے کے ساتھ بھاگ گئی تھی اس لیے اُس کا قتل فرض تھا۔ کیا واقعی محبت کا انجام موت ہونا چاہیے؟ کیا ماں کی مامتا صرف غیرت کی لاش پر سانس لیتی ہے؟
اس ویڈیو نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ماں کے ہاتھوں بیٹی کا قتل، یا قتل کی حمایت، وہ بدترین اجتماعی زوال ہے جس کی نظیر شاید تاریخ میں کم ہی ملتی ہو۔ "گل جان" کا قرآن اُٹھا کر اپنی بیٹی کے خون کو "جائز" قرار دینا نہ صرف انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے بلکہ انصاف کے تقاضوں کو بھی پکار پکار کر جھنجھوڑ رہا ہے۔ یہ سوال اب عدالتی ایوانوں میں گونج رہا ہے: کیا یہ "ماں" خود اس قتل میں شریکِ جرم نہیں؟ کیا یہ بیان ایک باقاعدہ اعترافی اقرار نہیں جس پر قانون کو حرکت میں آنا چاہیے؟
یہ معاشرہ کب تک محبت کرنے والوں کو غیرت کے نام پر دفن کرتا رہے گا؟ کب تک قرآن کا حوالہ دے کر نفرتوں کی آگ کو عبادت کا رنگ دیا جاتا رہے گا؟ کیا قرآن نے کسی ماں کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو گولیوں سے چھلنی کرنے کے فیصلے کی وکالت کرے؟ اگر نہیں، تو اب وقت آ گیا ہے کہ قانون اس بربریّت پر خاموش تماشائی نہ بنے۔ "گل جان" جیسے کردار اگر قانون کی گرفت سے بچ نکلے تو کل بیٹیوں کے لیے قبر پہلے سے کھودی جا چکی ہوگی۔
ہماری عدالتیں، ہمارا میڈیا اور ہمارا ضمیر، تینوں کو اب جاگنا ہوگا۔ بانو اور احسان اللہ کی لاشیں سوال بن کر ہمارے سامنے پڑی ہیں۔ ان کا قصور صرف محبت تھا اور ان کے قاتلوں کا جرم غیرت کا نام لے کر خون بہانا۔ گل جان کو اب صرف دعویدار ماں نہیں، بلکہ ممکنہ شریکِ جرم کی حیثیت سے قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔ ورنہ آنے والی ہر بانو کے لیے یہی پیغام ہوگا: "اگر تم نے بوسیدہ روایات سے ہٹ کر اگر کوئی فیصلہ کیا تو "ماں" ہی تمہاری قاتل ہوگی"۔

