Huzaifa Rehman Aur Dg Khan Ki Intikhabi Siasat
حذیفہ رحمان اور ڈی جی خان کی انتخابی سیاست

پاکستان کے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن کے وفاقی وزیر اور سابق انفارمیشن کمشنر، حذیفہ رحمان نے حال ہی میں این اے 185 ڈیرہ غازی خان سے متعلق ایک ویڈیو بیان جاری کیا ہے۔ اس بیان میں انھوں نے عوام سے رائے طلب کی کہ آیا وہ اس حلقے سے انتخابات میں حصہ لیں یا نہیں۔ بظاہر یہ عمل ان کے جمھوری رویّے اور عوامی شعور پر اعتماد کا مظہر ہے، مگر اس کے ساتھ ہی کئی سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔
پاکستان کی انتخابی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ یہ نظریات سے زیادہ ذات برادری، جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ ایسے میں ایک باصلاحیت، تعلیم یافتہ اور مہذب شخصیت جب اس دنگل میں قدم رکھتی ہے تو اکثر اس کا وقار مجروح اور کردار متنازع ہو جاتا ہے۔ گالم گلوچ، الزام تراشی اور کردار کُشی کے اس کلچر میں اصل مقصد یعنی عوامی خدمت پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
حذیفہ رحمان، فی الوقت جس منصب پر فائز ہیں، وہ بذاتِ خود ایک بڑا اعزاز ہے۔ ایک ایسے نوجوان سیاست دان اور صحافی کے لیے یہ مقام اس بات کی دلیل ہے کہ قابلیت اور بصیرت کے ذریعے بھی سماج کو رہنمائی فراہم کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں سوچنا ہوگا کہ آیا انتخابی میدان میں اتر کر اپنی ساکھ کو داؤ پر لگانا دانشمندی ہوگی یا نہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی ایسے روشن دماغ دیکھنے کو ملتے ہیں جو خدمت اور علم کی دنیا میں نمایاں تھے، لیکن سیاست میں قدم رکھتے ہی وہی نظام انہیں نگل گیا جسے وہ بدلنے کا خواب دیکھتے تھے۔ یہی خطرہ اس وقت بھی موجود ہے۔ اگر حذیفہ رحمان انتخابی سیاست کے شور و غوغا سے گریز کرتے ہیں تو وہ اپنی توانائیاں ریاستی خدمت، علمی بصیرت اور سماجی رہنمائی پر زیادہ بہتر انداز میں صرف کر سکتے ہیں۔
یہی وقت ہے کہ حذیفہ رحمان جیسے نوجوان اور باصلاحیت رہنما یہ فیصلہ کریں کہ آیا وہ جاگیردارانہ سیاست کے پرانے کھیل کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا اُس متبادل قیادت کے نمائندہ بننا چاہتے ہیں جو سماج کو نئی فکری سمت عطا کرے۔ انتخاب ان کا ہے، مگر قوم کی امید یہی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتیں اُس مقام پر صرف کریں جہاں سے عوام کو حقیقی رہنمائی میسر آئے۔

