Hampta Hua Suraj Aur Karmak e Shab Ki Khud Shanasi
ہانْپتا ہوا سورج اور کرمکِ شب کی خودشناسی

اگر میں کرمکِ شب ہوں مِری تو خیر ہے ساجد
نئے دستور کا سورج بھی میں نے ہانُپتا پایا
فرید ساجد لغاری کے شعر میں ایک ایسی داخلیت، خودی اور تہذیبی مشاہدہ پوشیدہ ہے جو بظاہر معمولی الفاظ میں ایک غیرمعمولی شعور کو سمیٹتا ہے۔ شاعر اپنے آپ کو "کرمکِ شب" یعنی رات کے ایک کمزور اور بےبس کیڑے سے تعبیر کرتا ہے، جو بظاہر حقیر اور بےنقش ہوتا ہے۔ تاہم، اسی خودتنقیدی میں شاعر کی فکری بلندی پنہاں ہے، کہ وہ اپنے وجود کی کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے بھی ایک ایسی بصیرت کا حامل ہے جسے زمانے کے "نئے دستور" کی تھکن اور نقاہت صاف دکھائی دیتی ہے۔ یہی فکری تضاد، دراصل اس شعر کا جوہر ہے۔
"نئے دستور کا سورج" دراصل اُس نظام، نظریے یا معاشرتی ڈھانچے کا استعارہ ہے جو بظاہر روشنی، ترقی اور انقلاب کا نمائندہ بن کر ابھرا تھا۔ شاعر کہتا ہے کہ اُس نے اُسے بھی "ہانپتا" یعنی تھکا ہوا، بےجان اور نڈھال پایا۔ یہ بیان صرف ایک سیاسی یا سماجی رائے نہیں بلکہ ایک گہرا فلسفیانہ مقدمہ ہے کہ ہر نیا نظام وقت کے ساتھ اپنی توانائی کھو بیٹھتا ہے اور جس روشنی کو وہ لاتا ہے، وہ بھی وقت کے سائے میں زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔ شاعر اس تھکن کو محض مشاہدہ نہیں کرتا، بلکہ اسے اپنی داخلی کمزوری کے ساتھ ملا کر ایک نیا زاویہ دیتا ہے۔
یہ شعر دراصل سچائی کی تلاش، فکری استقامت اور زمانے کی تغیر پذیری کے درمیان کی کشمکش کا آئینہ ہے۔ شاعر کا یہ کہنا کہ "اگر میں کرمکِ شب ہوں مری تو خیر ہے" ایک طرح کا صوفیانہ تسلیم بھی ہے، کہ میں اگر کمزور ہوں، ناتواں ہوں، تو یہ میرا مسئلہ نہیں، کیونکہ وہ سورج جس سے امیدیں وابستہ تھیں، وہ بھی تو نقاہت کا شکار ہے۔ اس بیان میں انسانی ناتوانی کو تسلیم کرکے اُسے کائناتی ناتوانی کے ساتھ جوڑا گیا ہے، گویا شاعر کی کمزوری انفرادی نہیں بلکہ اس عہد کی عمومی تھکن کا حصہ ہے۔
یہاں یہ شعر ہمیں ہگل، نطشے اور اقبال جیسے مفکرین کی یاد دلاتا ہے، جنہوں نے بھی "نئے انسان"، "نئے نظام" اور "نئے شعور" کے زوال کی نشاندہی کی تھی۔ شاعر ایک روشن خیالی کے بعد کی دنیا میں کھڑا ہو کر یہ کہہ رہا ہے کہ سچائیاں تھک چکی ہیں، خواب ہانپ رہے ہیں اور یقین کی سانسیں اکھڑ چکی ہیں۔ کرمکِ شب کی عاجزی ایک فلسفیانہ بصیرت میں ڈھل جاتی ہے جب وہ سورج کے ہانپنے کو دیکھتا ہے، یہ گویا باطن کا وہ آئینہ ہے جس میں کائنات کی سچائیاں بھی لرزتی نظر آتی ہیں۔
آخرکار، یہ شعر ہمیں اس سمت لے جاتا ہے جہاں فرد اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر کائنات کی سچائیوں پر سوال اٹھاتا ہے۔ شاعر اپنے احساسِ کمتری کو، مشاہدۂ کائنات سے بلند کرکے، ایک ایسی سطح پر لے جاتا ہے جہاں چھوٹے بڑے، طاقتور کمزور، سب وقت کی تیز دھوپ میں ہانپتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ شعر ایک استعاراتی مگر فکری مکاشفہ ہے، جو انسان کو خودی کے مقام پر لا کھڑا کرتا ہے، جہاں روشنی کی اصلیت بھی سوال بن جاتی ہے اور اندھیرے کی حیثیت بھی۔

