Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mahmood Fiaz
  4. Shadi Mein Jinsi Rawaiye Aham Hote Hain

Shadi Mein Jinsi Rawaiye Aham Hote Hain

شادی میں جنسی رویے اہم ہوتے ہیں

پاکستانی مرد سمجھتا ہے کہ نکاح کے بعد عورت اس کی ملکیت بن جاتی ہے۔ خاص طور پر جنسی معاملات میں وہ جب چاہے عورت کے ساتھ من مرضی کر سکتا ہے۔ یہ ایک انتہائی غلط سوچ اور رویہ ہے اور بطور میرج کونسلر میں ایسے بیشمار کیسز سن چکا ہوں جن میں آپسی ناچاقی کی ایک وجہ یہ رویہ اور سوچ بھی ہوتی ہے۔

آپ میں سے جو مجھے جانتے ہیں اور میری تحاریر باقاعدگی سے پڑھتے ہیں انکو علم ہوگا کہ میں مغربی کانسیپٹ میریٹل ریپ سے اتفاق نہیں کرتا۔ میریٹل ریپ ایک ایسی ٹرم ہے جو شادی شدہ جوڑے میں جنسی زبردستی کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور اس پر مغرب میں بہت سخت قوانین بھی بنائے جا چکے ہیں اور آجکل پاکستان میں بھی فیمنسٹ خواتین و حضرات اس کو پاکستان میں لاگو کرنے کے لیے تحریک چلاتے رہتے ہیں۔

میرے خیال میں میاں بیوی کے رشتے میں جنسی تعلقات کی نوعیت اس طرح کی ہوتی ہے کہ اس میں اکثر اوقات جنسی زبردستی کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے اور ایک عدالتی جج کے لیے محض دو ایسے لوگوں کے بیانات پر بھروسہ کرنا جن کا کوئی گواہ نہ ہو اور جو ایک دوسرے سے سخت ناراض ہوں، بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں ایسا کوئی بھی قانون محض شادی کے رشتے کو مزید کمزور کرتا ہے اور زیادہ تر اس کا استعمال غلط نیت ہی سے کیا جاتا ہے۔

لیکن دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں میاں بیوی کے رشتے میں جنسی تعلقات میں کئی بار ایسے مواقع آ جاتے ہیں جب ایک ساتھی شدت سے انکار کرتا ہے اور دوسرا ساتھی زبردستی اپنی خواہش پوری کر لیتا ہے اور جنسی رویوں کے فرق کی وجہ سے ایسا ننانوے فیصد مردوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ کیونکہ مرد کی جنسی ضرورت ایسی زبردستی سے بھی پوری ہو سکتی ہے۔۔ جبکہ عورتوں کے لیے ایسا کرنا تقریباََ ناممکن ہوتا ہے۔ شادی کے رشتے میں تو بالکل بھی نہیں۔

یہاں ایک باریک نکتہ بہرحال موجود ہے کہ عورت جسمانی زبردستی تو نہیں کر سکتی، لیکن نفسیاتی اور جذباتی بلیک میلنگ جیسے ہتھیار استعمال کرکے مرد کا جنسی استعمال اور استحصال کر سکتی ہے۔ اس پر میں الگ سے لکھوں گا۔ آج کا موضوع صرف جسمانی زبردستی اور وہ بھی مردوں کی جانب سے زبردستی ہے۔

پاکستان میں اس کا کانٹیکسٹ یہ ہے کہ ہمارے مذہبی مفتیان نے کچھ مذہبی تعلیمات کی تشریح اس انداز سے کی ہے کہ جس سے ایک عام پاکستانی مرد کی ذہن یہ بنتا ہے کہ جیسے ہی نکاح کی رسم ادا ہوئی تو اس کو عورت کے جسم پر کلی اختیار حاصل ہو جاتا ہے اور ایک اوسط ذہن کا مرد اس اختیار کو ایسا ہی سمجھتا ہے جیسے اس نے بازار سے ایک موٹر سائیکل خریدا ہو اور اب اس کو چلانا چاہتا ہو۔

جبکہ اسلامی تعلیمات کی حقیقت یہ ہے کہ عورت کی مرضی اور منشا، کو ہر جگہ ترجیح دی گئی ہے۔ لیکن اسلام کا مزاج چونکہ حیا اور پردہ داری کا ہے تو یہ تعلیمات ہمیں ملفوف انداز میں یا احادیث میں ملتی ہے۔ لیکن میری عاجزانہ رائے میں کہیں پر بھی کنفیوزن ہرگز نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ عورت کو اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ وہ شوہر کی جنسی ضروریات کو ہر کام پر ترجیح دے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ عورت کو ایک آلہ تسکین سمجھا یا بتایا گیا ہے۔

پاکستانی مردوں کے لیے ایک حدیث، جس کا مفہوم ہے کہ "عورت تمہاری کھیتی (کی طرح) ہے اس میں جیسے چاہو داخل ہو جاؤ" بہت مقبول ہے اور وہ اس حدیث سے مطلب یہ نکالتے ہیں کہ اب اس کھیتی کو وہ چاہیں تو اجاڑیں اور چاہے تو استعمال کریں اور فصل لگائیں۔

حالانکہ معمولی سی عقل رکھنے والا کسان بھی اپنے کھیت کو جیسے استعمال کرتا ہے اس کو دیکھ لیں تو ہمیں اندازہ ہو جائیگا کہ ایک کھیتی سے فائدہ لینے کے لیے کسان کس قدر محنت کرتا ہے۔ اس کے لیے کھاد (یعنی نشو و نما کی خوراک) کا بندوبست کرتا ہے۔ پانی لگاتا ہے۔ مٹی نرم کرنے کےلیے ہفتوں محنت کرتا ہے۔ جھاڑ پھونس اور جڑی بوٹیاں تلف کرنے کے لیے بھی پیسہ اور خون پسینہ ایک کرتا ہے۔ اس سب کے بعد بھی کسان جلدی نہیں کرتا فصل لینے کے لیے جب اس کو بیج ڈالنا ہوتا ہے تو وہ صبر سے اس موسم کا انتظار کرتا ہے جب بیج بہترین پھل دیگا۔ تب جا کر اس کو محنت کا پھل اس کھیتی سے اچھی فصل کی صورت میں ملتا ہے۔

اگر پاکستانی مرد صرف اس ایک مثال ہی سے سمجھنا چاہیں تو انکو اندازہ ہو جائیگا کہ انکے جنسی رویے اس معاملے میں کس قدر اسلامی تعلیمات سے ہٹے ہوئے ہیں۔

عورت سے جنسی فائدہ اور پھل (یعنی اولاد) حاصل کرنے کے لیے ہر مسلمان مرد کو بھی اپنی کھیتی یعنی عورت کو اسی طرح خیال خاطر سے استعمال کرنا چاہیے۔ اس کی نشوونما کا خیال رکھنا، اس کی جسمانی صحت کا خیال رکھنا، اس کی نفسیاتی حالت کو بہتر رکھنا اور ان تمام کے بعد بھی بیج ڈالنے کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرنا ہی بہترین حکمت عملی ہے۔

یاد رکھیے۔ نکاح دراصل رجسٹری انتقال یا ملکیت کا پیپر ہے۔ اب اس ملکیت سے فائدہ اٹھانا ہے یا اس کو جنگل بنا کر اپنے لیے اور لوگوں کے لیے عذاب کی شکل دینا ہے، یہ آپ کا رویہ طے کرتا ہے۔

میرا ایسے تمام کیسز میں مردوں کو مشورہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے مزاج کو سمجھیں۔ اس کی جنسی ضروریات کو سمجھیں اور اگر انکو علم نہیں تو مناسب علم حاصل کریں کہ عورت کن باتوں پر اپنے مرد کے لیے جنسی رغبت محسوس کرتی ہے اور میرا یقین مانیے وہ باتیں ہرگز وہ نہیں ہیں جو آپ سوشل میڈیا کی سستی اور گھٹیا پوسٹوں میں آتی ہیں۔ نہ آتے جاتے چٹکی کاٹنا، نہ آنکھ مارنا، نہ بےوجہ چومنے چاٹنے کی ایکٹنگ کرنا۔۔ بلکہ اگر میاں بیوی میں نفسیاتی فاصلے ہوں تو ایسی حرکات الٹا مسئلے کو اتنا خراب کر دیتی ہیں کہ عورت کو شادی کے نام پر ہی ابکائی آنے لگتی ہے۔

کچھ اشارے دے کر یہ مضمون یہیں ختم کرتا ہوں۔ مزید تفصیل اگلے ابواب میں۔

۔ عورت کو بہادر مرد پسند ہوتے ہیں۔ آپ نے جنگ نہیں لڑنا۔۔ بس کبھی کبھی اپنی بیوی کے سامنے ڈھال بن جانا ہے جب کبھی اس کو رشتے داروں کی مخالفت کا سامنا ہو۔

۔ عورت کو لمبا قد پسند ہے۔ مگر اگر آپ ناٹے قد کے ہیں، تو سخاوت آپ کا قد ایک فٹ تک بڑھا سکتی ہے۔

۔ عورت کھیل تماشے کو پسند کرتی ہے۔۔ آپ سنجیدہ ہیں لیکن اپنے بچوں کے ساتھ کارٹون بنے رہتے ہیں تو عورت کو بھی بچہ سمجھ لیں (چاہے وہ فلاسفر ہو۔۔ مگر آپ کے لیے بچہ بن جائیگی)

۔ عورت کو باتیں پسند ہیں۔ آپ کو سیکس پسند ہے۔ ڈیل کر لیں۔ جس روز آپ کو عورت کی آمادگی چاہیے اس سے دو روز پہلے سے اس سے باتیں شروع کر دیجیے۔

یہ لسٹ بہت لمبی ہے۔ اس میں سینکڑوں اشارے آ سکتے ہیں۔ لیکن آپ نوٹ کریں کہ ان میں سے ایک بھی بات کا ڈائریکٹ تعلق جنسی عمل سے نہیں ہے۔ یہی وہ انڈائریکٹ کنیکشن ہے جس کو عام پاکستانی مرد نظر انداز کر دیتا ہے اور پھر عورت اس کے لیے مٹی کا ڈھیر بن جاتی ہے۔

Check Also

Aatish Kada Baku (6)

By Ashfaq Inayat Kahlon