Mashriq e Wusta Aik Bari Jang Ke Dahane Pe
مشرق وسطیٰ ایک بڑی جنگ کے دہانے پہ

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے ایران کے تین اہم جوہری مراکز، فورڈو، نطنز اور اصفہان، پر کامیاب بمباری کی ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ تمام امریکی طیارے ایرانی فضائی حدود سے محفوظ باہر نکل چکے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ "امن قائم ہو"۔ یہ اعلان انہوں نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ Truth Social پر کیا اور امریکی فوجیوں کو "عظیم ترین وارئیرز" قرار دیتے ہوئے مبارکباد دی۔
ایران کی طرف سے فوری ردعمل تو سامنے نہیں آیا، مگر سرکاری خبر رساں ایجنسی IRNA نے ایک نشریاتی ادارے کے افسر کے حوالے سے بتایا کہ ان تینوں جوہری مراکز سے تابکار مواد پہلے ہی نکال لیا گیا تھا، جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ایران کو پہلے سے اس حملے کا خدشہ تھا۔
ادھر الجزیرہ کی رپورٹر ڈورسا جباری نے قطر سے رپورٹ کیا کہ امریکہ کی طرف سے جن تین مراکز پر حملہ کیا گیا وہ ایران کے جوہری پروگرام کے بنیادی ستون تھے۔ فورڈو اور نطنز وہ مراکز ہیں جہاں ایران 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر رہا تھا، جبکہ اصفہان میں یورینیم کو افزودہ شکل میں تبدیل کیا جاتا تھا۔ 2022 کی IAEA رپورٹ کے مطابق 90 فیصد افزودہ یورینیم اصفہان ہی میں ذخیرہ کیا گیا تھا۔ ایران میں کل چھ جوہری مراکز ہیں اور امریکہ نے جن تین پر حملہ کیا وہ سب سے اہم شمار ہوتے ہیں۔
اسی دوران ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے آفیشل ٹیلیگرام اکاؤنٹ پر ان کا ایک پرانا وارننگ ویڈیو دوبارہ شیئر کیا گیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر امریکہ اس جنگ میں اسرائیل کے ساتھ شریک ہوتا ہے تو "سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کا ہوگا"۔
امریکہ میں اس حملے پر سیاسی تقسیم کھل کر سامنے آئی ہے۔ ریپبلکن سینیٹر لنڈسی گراہم نے ٹرمپ کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک "درست فیصلہ" تھا اور "ہماری فضائیہ دنیا کی سب سے بہترین ہے"۔ دوسری طرف ڈیموکریٹ رکن کانگریس سارا جیکبز نے اس حملے کو غیر آئینی اور ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز قرار دیا۔
بین الاقوامی تجزیہ کار اس بات پر متفق نہیں کہ یہ حملہ ایک محدود کارروائی تھی یا یہ ایک بڑی جنگ کا آغاز ہے۔ RAND کارپوریشن کے سینئر رکن بل کورٹنی کے مطابق فورڈو جیسے مضبوط مرکز کو مکمل تباہ کرنے کے لیے ایک سے زیادہ حملے درکار ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اصل حقیقت اس وقت سامنے آئے گی جب حملے کے اثرات کا جائزہ مکمل ہوگا۔
یمنی گروپ الحوثی کے سینئر رکن محمد الفراح نے اس حملے کو جنگ کی شروعات قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "اب ہٹ اینڈ رن کا وقت ختم ہو چکا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کو اگر لگتا ہے کہ چند تنصیبات پر حملہ کافی ہوگا تو وہ غلطی پر ہے۔
ادھر الجزیرہ کی رپورٹر کمبرلی ہالکیٹ نے واشنگٹن سے رپورٹ کیا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی نیشنل سیکیورٹی ٹیم سے یہی مشورہ لیا تھا کہ کیا اس حملے کے بعد امریکہ کسی بڑی جنگ میں نہیں الجھے گا؟ انہیں مشورہ دیا گیا تھا کہ یہ ایک "single strike operation" ہوگا اور ایران کے نیوکلئر پروگرام کو نقصان پہنچا کر امن کی راہ ہموار کرے گا۔ تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ اقدام امریکہ کو ایک طویل اور مہلک جنگ میں جھونک سکتا ہے۔
اردن سے الجزیرہ کی نمائندہ حمدہ سالہط نے رپورٹ کیا کہ اسرائیل کئی دنوں سے امریکہ کو اس جنگ میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسرائیلی میڈیا پر بینرز اور پیغامات آویزاں تھے جن میں کہا جا رہا تھا: "ٹرمپ! یہ کام مکمل کرو"۔ اطلاعات ہیں کہ حالیہ دنوں میں اسرائیلی حکام نے ٹرمپ انتظامیہ سے مسلسل رابطہ رکھا اور امریکہ کے صبر پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔
سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گیلنٹ، جو اس وقت جنگی جرائم کے الزام میں بین الاقوامی عدالت میں مطلوب ہیں، نے امریکہ کے اس حملے کو "جرأت مندانہ فیصلہ" قرار دیا۔ ان کے مطابق: "دنیا اب پہلے سے زیادہ محفوظ ہوگئی ہے"۔
ایک اور سنجیدہ معاملہ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے یہ حملہ کانگریس کی منظوری کے بغیر کیا۔ امریکی آئین کے تحت جنگ چھیڑنے کا اختیار صرف کانگریس کے پاس ہے، مگر ٹرمپ نے قانون سازوں کو اعتماد میں لیے بغیر کارروائی کر دی۔ سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان میں کئی اراکین نے پہلے ہی ترامیم پیش کی تھیں کہ ٹرمپ کو حملے سے قبل اجازت لینی چاہیے، مگر اس سے پہلے ہی کارروائی ہوگئی۔
واشنگٹن سے رپورٹنگ کرنے والی ہیدی ژو-کاسٹرو کے مطابق، دنیا اب ایک نئے، خطرناک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ صرف چند دن پہلے ٹرمپ نے ایران کو دو ہفتے کی مہلت دی تھی کہ وہ سفارتکاری کی راہ پر واپس آ جائے، لیکن وہ انتظار کیے بغیر حملہ کر بیٹھے۔ اب سب کچھ ایران کے ردعمل پر منحصر ہے۔ کیا ایران میز پر واپس آئے گا؟ یا جنگ مزید شدت اختیار کرے گی؟ یہ ایک بے یقینی کا لمحہ ہے۔
کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ امریکی صدر نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ فورڈو کا جوہری مرکز "مکمل طور پر تباہ" ہو چکا ہے، حالانکہ یہ بیان ایک غیر مصدقہ انٹیلی جنس ذرائع سے لیا گیا ہے، جس کے حقائق پر کئی بار سوال اٹھ چکے ہیں۔
ادھر میدان جنگ میں بھی صورت حال کشیدہ ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان میزائل اور ڈرون حملوں کا تبادلہ جاری ہے۔ اسرائیل نے قم میں ایران کے پاسداران انقلاب کے ایک اہم کمانڈر سعید عزادی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دوسری طرف غزہ میں بھی اسرائیلی حملے جاری ہیں، جہاں صرف ایک دن میں 41 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
عالمی منظرنامہ تیزی سے ایک بڑی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ امریکہ، اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کسی بھی وقت عالمی تصادم میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے زور دیا ہے کہ اب "امن کا وقت ہے"، لیکن سوال یہ ہے: کیا یہ امن ممکن ہے یا صرف خام خیالی؟

