Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mahmood Fiaz
  4. Mard, Aurat, Do Rang

Mard, Aurat, Do Rang

مرد، عورت، دو رنگ

مرد و عورت ایک ہی ندی میں بہنے والے دو رنگ پانی ہیں۔ ساتھ ساتھ بہتے ہیں مگر آپس میں ملتے نہیں ہیں۔ دونوں کی شخصیات اتنی الگ ہیں کہ ساتھ ممکن ہی نہیں ہے۔ مغربی ممالک جہاں لڑکا لڑکی دس سال سے کم عمر میں ایک دوسرے کو دوست بنا لیتے ہیں اور گاہے ڈیٹنگ نہ سہی مگر مکس ٹرپ اور دوستانہ میل جول برقرار رکھتےہیں، وہاں بھی لڑکی اپنے جیسی لڑکیاں دوست بناتی ہے اور لڑکا اپنے جیسے لڑکوں میں خوش رہتا ہے۔

پاکستان میں میری جنریشن تک اسکول، کالج اور گاہے یونیورسٹی کی سطح تک لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم بھی الگ ہوتی ہے اور دیگر میل جول کے مواقع بھی کم کم ملتے ہیں۔ اب ماحول کچھ بدل گیا ہے۔ مگر اس اختلاط میں بھی دوئی برقرار ہے۔

گھروں کے ماحول میں بہن بھائی کی وہ دوستی یا بے تکلفی خال خال ہی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے مزاج آشنا ہو سکیں۔ اگر کہیں ہے بھی تو بس ضرورت کی حد تک۔ مجبوری نہیں ہے کہ بہن بھائی کے خیالات کو سمجھے یا بھائی بہن کے احساسات کو مدنظر رکھے۔

ایسے میں شادی واحد موڑ ہے ہم سب کی زندگیوں کا، جس میں انسان کو حقیقی طور پر اپنے سے مختلف جینڈر کے انسان کے ساتھ رہنے سہنے، بھگتنے بھگتانے اور لڑنے بھڑنے کا موقع ملتا ہے۔ پہلی مرتبہ پتہ چلتا ہے کہ اس فرق کی وجہ سے انسانی زندگی پر کیا کیا اثرات پڑتے ہیں۔

میری منگنی کے کچھ دیر بعد نکاح کی تقریب بھی ہوگئی۔ البتہ رخصتی کچھ عرصہ بعد رکھی گئی۔ ایک روز منکوحہ بیگم صاحبہ کا فون آیا کہ مجھے بازار جانا ہے کچھ سوٹ سلوا رہی ہوں، آپ ساتھ ہونگے تو رنگ سیلیکٹ کرنے میں اچھا رہے گا۔ (نکاح کے بعد ساس صاحبہ کی اجازت تھی)۔ مجھے بہت اچھا لگا۔ اپنی اہمیت کا ایک الگ سے احساس اور بیگم کے ساتھ جانے کی خوشی بھی۔

وقت مقررہ پر بیگم کو بائیک پر پک کیا اور بتائے گئے بازار کی طرف چل پڑے۔ رستہ خوش گپیوں میں گزرا۔ بازار زیادہ دور نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایک ایسے بازار کے اندر داخل ہو رہے تھے، جہاں دونوں اطراف زنانہ سوٹ لٹک رہے تھے۔ جگہ جگہ درمیان میں ٹیلرز کی دکانیں تھیں، مشینیں گھوم رہی تھیں۔ بٹنوں کی دکانیں الگ تھیں، تو لیس اور گوٹہ کناری کی الگ۔ میرے لیے یہ دنیا ہی الگ تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ٹائم مشین سے گزر کر میں کسی اجنبی دیس میں آ گرا ہوں، جہاں کی زبان، رہن سہن، تہذیب و تمدن سب الگ ہے۔

بیگم صاحبہ کے پاس بیگ میں کچھ کپڑوں کی کترنیں تھیں، جن سے میچنگ لیس، بٹن وغیرہ خریدنا تھے۔ رنگ کرنے والے کو دوپٹے دینا تھے۔ میں ہونقوں کی طرح ساتھ ساتھ چل رہا تھا، مگر حاضر نہ تھا۔ بیگم جب بھی کوئی بات پوچھتی سر ہلا دیتا، یا دو رنگوں میں سے ایک پر انگلی رکھ دیتا۔

کچھ دیر بعد میری یہ حالت تھی کہ میں باقاعدہ سوچنے لگا کہ شادی انسانی زندگی میں کس قدر ضروری ہے؟ اور کیا اس کے بغیر گذارا ہو سکتا ہے یا نہیں؟

خیر ہوئی کہ بیگم صاحبہ کا کام ختم ہوگیا اور ہم اس بازار سے باہر نکل آئے۔ اس واقعے کے چند روز بعد بیگم کا فون پھر سے آیا کہ آج کچھ شاپنگ کرنا ہے، کیوں نہ آپ بھی ساتھ چلیں۔۔ میں نے ایک طویل ٹھنڈی سانس بھری اور کہا، آج آپ باجی کے ساتھ شاپنگ کر لو، ہم کسی اور روز صرف آئس کریم کھانے جائیں گے۔

شاپنگ مالز میں آپ میرے جیسے ننانوے فیصدی شوہر دیکھتے ہونگے، جو بیچارے بچوں کو اٹھائے جدید طرز زندگی کے اس عذاب جس کو خواتین اپنی زندگی کا مقصد قرار دیے ہوئے ہیں، شاپنگ۔۔ سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ مرد و عورت کے مزاج کے فرق کو جاننے کو یہ ایک مثال بھی کافی ہے۔ کہ صدیوں کے ساتھ میں مرد یہ عادت اپنے اندر ڈیویلپ نہیں کر پایا۔

البتہ استثنا ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ جیسے سو میں سے چند خواتین شاپنگ سے نفرت بھی کرتی ہیں ہیں ایسے ہی سو میں سے چند مرد شاپنگ سے محبت بھی کر سکتے ہیں۔

میری بیٹی جو سائیکولوجی کی اسٹوڈنٹ ہے، مجھے یہ بتا رہی ہے کہ بابا کچھ مرد میٹروسیکسوئیل بھی ہوتے ہیں۔ یعنی ایسے مرد شاپنگ، فیشن، لباس بنانے خریدنے جیسی ایسی ایکٹوٹیز جو عورتوں سے مخصوص ہیں، انکو بہت انجوائے کرتے ہیں۔ خود بھی خوب حصہ لیتے ہیں۔

سوال اب یہ رہ گیا ہے کہ کیا میٹروسیکسوئل مرد فطری طور پر ایسے ہوتے ہیں یا انکی تربیت ایسے کی جا سکتی ہے اور اس سے انکی مردانہ شخصیت عورتوں کے پرکشش ہو جاتی ہے یا سہیلی بنانے کو دل کرتا ہے۔

Check Also

Koi Darmiya Nahi Chahiye

By Abu Nasr