Maghribi Muashra, Azadi e Niswan Aur Aik Case
مغربی معاشرہ، آزادیِ نسواں اور ایک کیس
مغربی معاشرے کی کوئی بھی خرابی بارے لکھنے لگتا ہوں تو بہت سے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار پہنچ جاتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ بیس سال ہو گئے نیویارک میں ہمیں تو ایسا کوئی کیس نہیں ملا۔۔
یہ وہی لوگ ہیں، جو پاکستان میں بھی ہوتے تو کبھی سیکھنے کی کوشش نہ کرتے۔۔ انکو اپنے کام سے غرض ہوتی ہے۔ اکثر لوگ ایک مخصوص دائرے میں رہتے ہیں۔ کچھ پاکستانی لوگوں سے ملتے ہیں۔ ویک اینڈ پر اچھا کھانا کھا کر سو جاتے ہیں۔ اور اگلے روز پھر ڈالر کمانے نکل پڑتے ہیں۔
ان کو برا نہیں کہہ رہا۔۔ لیکن کم از کم انکی یہ رائے قابل بھروسہ نہیں کہ انکو اس معاشرے کے بارے میں کچھ بھی پتہ ہے۔
یہ جدید دور ہے۔ کمیونیکیشن اس حد تک ہے کہ انسان یہاں بیٹھے کروڑوں میل دور مریخ کی تصاویر موصول کر رہا ہے اور یہاں بیٹھے وہاں کی "مٹی" کا تجزیہ کر رہا ہے۔۔
تو اصل بات تجزیہ کرنے کی ہے۔ معلومات حاصل کرنے کی ہے۔ ڈیٹا اکٹھا کرنے کی ہے۔ اگر آپ اس نیت سے معاشرے کو نہیں دیکھتے، اور مناسب تعلیم و تربیت نہیں رکھتے تو آپ متعلقہ موضوعات پر اتنے ہی بے خبر ہیں جتنا ایک نومولود بچہ۔۔
امریکہ کا ایک عدالتی کاروائی پر مبنی شو ہے جس میں ڈی این اے کی مدد سے ایسے کیسز کا فیصلہ کیا جاتا ہے جن میں بچے کی ولدیت مشکوک ہو۔ یہ شو دو ہزار تیرہ سے دو ہزار بیس تک چلتا رہا اور اس وقت بھی یوٹیوب پر اس کی ویڈیوز اپلوڈ کی جاتی ہیں۔
میرا مشورہ ہے کہ مغربی معاشرے کے مرد و عورت کے تعلقات کا ڈی این اے جاننا ہے تو آپ اس شو کی دس بیس ویڈیوز دیکھ لیں۔ آپ کی آنکھیں کھل جائینگی۔ (گر ضمیر سچ بولنے پر آمادہ ہو تو)
اس شو کے ایک کیس کی کہانی یہ ہے۔
ایک عورت کی دو سال کی بچی ہے۔ مگر اس کو کنفرم نہیں ہو رہا کہ اس بچی کا باپ کون ہے۔ ایک شخص کے ساتھ وہ رہ رہی تھی۔ اس کا ڈی این اے کروایا گیا تو وہ اس بچی کا باپ نہ نکلا۔۔ پھر اس عورت نے اس مرد سے رابطہ کیا جس کے ساتھ وہ ایک ماہ تک جنسی تعلق میں رہی تھی، موجودہ شخص سے پہلے۔۔ اور اس سابقہ آشنا سے کہا کہ وہ اس بچی کا باپ ہے۔۔ اس آشنا نے جب بچی کو دیکھا تو اس کو اس میں اپنی کوئی جھلک نظر نہیں آئی۔۔ تو اس نے بچی کو اپنانے سے انکار کر دیا۔۔
یہ عورت مقدمہ اس عدالت میں لے آئی۔ یہاں اس پہلے والے مرد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا۔ تو پتہ چلا کہ یہ بندہ بھی اس بچی کا باپ نہیں ہے۔
اب جج اس عورت سے کہہ رہی ہے کہ کوئی تیسرا بھی ہوگا۔۔ جو اس بچی کا باپ ہوگا۔۔ اب تم اس کو ڈھونڈو۔۔
دوستو اور خواتین! یہ ہے اصل "میرا جسم میری مرضی"۔۔ کی مجسم شکل۔۔
یہ ہے وہ معاشرہ جس کے لیے ہماری "آزاد انڈیپنڈنٹ ویمن" دن رات ہمیں برابری اور آزادی کے لیکچر دیتی ہیں۔۔
آزادی ایک عورت اور ایک بچی کی زندگی کیسے تباہ کرتی ہے۔۔ جب وہ اپنی زندگی کے فیصلے ایسے برباد طریقے سے لیتی ہے۔۔ نہ اس عورت کو کوئی پوچھنےو الا ہے۔ اور نہ اس دو سالہ بچی کو۔۔
مگر سوال یہ ہے کہ وہ تو امریکہ ہے۔۔ ریاست امیر بھی ہے، بے سہارا کو سہارا بھی دیتی ہے۔۔ وہاں تو یہ عورت جی پائے گی۔۔
مگر ہمارے یہاں اندھا دھند اس کی نقل کرنے کا انجام جانتی ہیں یہ خواتین؟ تین مرد (یا اس سے بھی زیادہ) اس عورت کو جسم روند کر چلے گئے۔۔ یہ آزادی ہے؟ یہ خوشی ہے؟
خدا کے لیے سوچا کرو۔۔ بیٹیاں۔۔ بیٹیوں کی بیٹیاں۔۔ سب رل جائینگی۔۔ اس راہ پر۔