Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mahmood Fiaz
  4. Kahaniyan Zindagi Ki

Kahaniyan Zindagi Ki

کہانیاں زندگی کی

وہ چھبیس سال سے امریکہ جیسے ملک میں مقیم تھا۔ قدرت نے ذہین پیدا کیا تھا۔ ماں باپ نے محنتی بنانے میں کسر نہ چھوڑی۔ امریکہ کی یونیورسٹیوں سے ہوتا ہوا وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی آنکھ کا تارہ بن گیا۔ ڈالر وافر ہوئے اور ذہانت باقی شعبوں میں چمکی تو اس نے ٹیکنالوجی کمپنیوں کے شئیرز خرید لیے۔ ہزار لاکھ ہوا اور لاکھ کروڑ۔۔

چھبیس سال بعد وہ میرے سامنے بیٹھا تھا۔ ہم اسکول کے زمانے کی ساری باتیں کر چکے تھے۔ اب زندگی کے بارے میں اپنے اپنے تاثرات بیان کیے جا رہے تھے۔

تو تم نے خوب انجوائے کیا لائف کو؟ میں نے اس سے پوچھا۔

لائف کو؟ زندگی کو؟ وہ اپنے مخصوص انداز میں سوال پر غور کرنے لگا۔ سائنسی انداز فکر اس میں بچپن ہی سے تھا۔ ہر سوال کا جواب بہت غور کرنے کے بعد دیتا تھا۔

دیکھو! امریکا جا کر میں نے بہت پیسہ کمایا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ صبح ایک ریاست میں اور شام دوسری ریاست میں ہوتا تھا۔ ہارورڈ گروپ کا نام سنا ہے تم؟ اس نے میری جانب دیکھا، اور میرا ہونق منہ دیکھ کر اپنی بات جاری رکھی۔۔ ہارورڈ گروپ امریکا کے بڑے کاروباری اداروں میں شامل ہے۔ انکے ساتھ کام کرنا ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ اور پیسہ بھی خوب ملتا ہے۔

تمہیں یاد ہے ہم لاہور کینٹ میں ایک دو کمرے کے گھر میں رہا کرتے تھے۔ مگر امریکا میں میں نے جو گھر خریدا اس میں سوئمنگ پول بھی شامل تھا۔۔ ایسی تھی زندگی میری۔ وہ مسکرایا۔ اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

میں خاموشی سے اسکی جانب دیکھ رہا تھا، اس نے ابھی جواب نہیں دیا تھا، اور میں جانتا تھا بالاخر وہ بالکل مکمل جواب ضرور دیگا میرے سوال کا۔

کچھ دیر خاموشی کے بعد اس نے میری جانب دیکھا اور بولا۔۔ تم نے پوچھا ہے کہ میں نے زندگی کا لطف اٹھایا یا نہیں۔۔ اور میں نے تمہیں یہ ساری کہانی سنائی ہے۔ میرے پاس بہترین گاڑیاں تھیں۔ عالیشان گھر، جس کا امریکا میں خواب دیکھا جا سکتا ہے، تھا۔۔ اس گھر میں آسائش کی ہر شئے تھی۔۔ میں نے اس سب کا لطف اٹھایا ہے۔۔ مگر یہ زندگی کا لطف ہرگز نہ تھا۔ میں نے چیزوں کا لطف اٹھایا ہے۔ مہنگی، پرتعیش، اور آسائش سے بھری چیزوں کا لطف۔۔ بالکل میں نے اٹھایا ہے۔ تمہارے اندازہ لگانے کے لیے بتاتا ہوں کہ میرے لیونگ روم میں جو لکڑی کا سنٹر ٹیبل تھا، اسکی قیمت آٹھ ہزار ڈالر تھی۔۔

مگر۔۔ بولنے بولتے وہ رک گیا۔۔ میری طرف ایسے دیکھنے لگا جیسے کوئی پھانسی پر چڑھایا جانے والا اپنے کسی عزیز کو آخری بار کوئی پیغام دینے جا رہا ہو۔۔ اپنی پوری زندگی کا نچوڑ۔۔ اپنی زندگی کا سب سے قیمتی سبق۔۔ میں ہمہ تن گوش تھا۔۔ وہ میرے بچپن کا دوست تھا۔۔ اسکی ذہانت سے میں متاثر تو تھا ہی، ۔۔ مجھے اس سے محبت تھی۔۔ ایسی محبت جس میں آپ محبوب کو کاپی کرنے لگتے ہو۔۔ میں اس سبق کو جاننے کے لیے پوری طرح تیار تھا۔۔

مگر۔۔ میں زندگی کا لطف نہ اٹھا سکا۔۔ میرے اردگرد چیزیں تھیں۔۔ جو زندگی کو میرے پاس آنے سے روکتی تھیں۔ میری انتہائی پیار کرنے والی بیوی، اور بیٹی میری راہ دیکھتیں اور میں چیزوں۔۔ مزید چیزوں کے لیے۔۔ اپنا سارا وقت گنوا دیتا۔۔ میں اپنے بال تو سنوارتا، مگر کئی کئی روز گزر جاتے اور میں خود کو آئینگے میں دیکھنے کی نعمت سے بھی محروم تھا۔۔ یہ نہین کہ فرصت نہیں تھی۔۔ بس خیال نہیں تھا۔۔ دھیان کے درمیان گاڑیاں، گھر، اور آسائشیں آ جاتی تھیں۔ ان سب کا خیال رکھنے کا خیال آجاتا تھا۔۔ ان سب کو بڑھانے اور بچانے کا خیال آتا رہتا تھا۔

پھر ایک روز میں اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا اور امریکا کا نقشہ اسکے سامنے پھیلا دیا۔۔ اور اس سے کہا، اس نقشے پر وہاں انگلی رکھ دو جہاں تم اور میں جا کر زندگی گذار سکیں۔۔ ان تمام چیزوں سے دور۔۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میری بیوی نے ایک بار بھی مڑ کر ان تمام چیزوں کی طرف نہیں دیکھا اور نہ ہی ٹھنڈی سانس بھری۔۔ اگر وہ ایسا کرتی تو شائد میں کبھی زندگی کا لطف نہ لے پاتا۔۔

میری بیوی نے نقشے پر جہاں انگلی رکھی، میں مختصر سامان کے ساتھ اپنی بیوی اور بیٹی کو ساتھ لیے وہاں پہنچ گیا۔ یہ ایک نیم پہاڑی علاقہ تھا۔ چھوٹا سا شہر، جہاں بڑے شہروں جیسی ہلچل بھی نہیں تھی اور نہ ہی مشینوں کی گھن گرج۔۔ ہم نے ایک چھوٹا سے فلیٹ لے لیا اور مختصر سامان کے ساتھ وہاں رہنے لگے۔۔ باقی کہانی چھوڑ دو۔۔ مکان اور گاڑیاں کب اور کیسے بیچیں۔۔ نوکری کا کیا ہوا۔۔ اتنا تو تم جانتے ہی ہو۔۔ کام کرنے والے کو اس دنیا میں ہر جگہ کام مل جاتا ہے۔

بس تب سے۔۔ وہ زرا اونچی اور پریقین آواز میں بولا۔۔ بس تب سے میں زندگی کو انجوائے کر رہا ہوں۔۔ بیٹی کے ساتھ کھیلتا ہوں۔۔ بیوی کے ساتھ شام کی چائے پر ڈھیروں باتیں کرتا ہوں، لمبی واک کرتا ہوں۔۔ اور ہاں ایک چھوٹی سی لیب بنا رکھی ہے وہاں وہ تمام تجربات کرتا رہتا ہوں جو اسکول کے زمانے میں کرتا تھا۔۔

اسکی آنکھیں چمک رہی تھیں۔۔

جانتے ہو۔۔ اب ہمارے لیونگ روم میں پڑی میز کتنے کی ہے؟ صرف چالیس ڈالر کی۔۔

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi