Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mahmood Fiaz
  4. Gorastan Ki Yaadein (4)

Gorastan Ki Yaadein (4)

گوراستان کی یادیں (4)

چمکیلی دھوپ لیسٹر شہر کے مکانوں پر پڑ رہی تھی۔ اتنا نیلا آسمان اور اتنے سفید بادل میں نے کم کم ہی دیکھے تھے۔ ہاسٹل سے یونیورسٹی میں واقع یونین بلڈنگ کا فاصلہ آدھ کلومیٹر کے قریب ہوگا۔ یونیورسٹی روڈ کے ایک جانب کھلا کھیل کا میدان تھا، اور دوسری جانب قبرستان۔ ان دونوں کے بیچ سے گذرتی سڑک کے کنارے گیلے فٹ پاتھ، جو انگلینڈ کے موسم کے باعث اکثر گیلی ہی رہتے تھے۔

کھیل کے میدان میں نوجوان فٹ بال کھیل رہے تھے۔ انکی آوازیں، دھوپ میں چمکتے چہرے اور رنگ برنگے ٹراؤزرز زندگی کی طرف بلاتے تھے۔ قبرستان کی دیوار کے پار کائی لگے کتبوں پر گری کبوتروں کی بیٹیں، درختوں کے نیچے گھنی گھاس میں جابجا اگی جھاڑیاں، اور اکا دکا قبر پر رکھا پھولوں کا مرجھایا ہوا گلدستہ اس حقیقت کی یاد دلاتے تھے، جس کا سامنا ہم میں سے ہر ایک نے ایک دن کرنا ہے۔

یونین بلڈنگ یونیورسٹی کے باقی ڈیپارٹمنٹس کی عمارتوں کے درمیان ایک دو منزلہ چوکور عمارت تھی۔ جس کے ایک کونے والے دفتر سے مجھے میرے کمرے کی چابی اور ہاسٹل کا ہدایت نامہ مل گیا۔ فری مینز کامن ہاسٹل کا نام تھا، جو نکسن ہاسٹل کی عمارت سے قریب ہی تھا، جہاں کل رات مجھے ٹھہرایا گیا تھا اور اس جاپانی لڑکی کو بھی، جو اب نہ جانے کونسے ہاسٹل میں بیٹھی ہوگی۔

زندگی کی حقیقت بس یہیں تک ہے۔ ہم زندگی میں بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں، گاہے کچھ کے ساتھ حادثاتی طور پر زیادہ قریب بھی آ جاتے ہیں، مگر ایک حادثے کو کہانی بنانے والے صرف کہانی کار ہوتے ہیں، زندگی میں اتفاقات ہوتے ہیں اور شائد کہانیوں سے زیادہ عجیب تر مگر کم از کم وہ اتفاقات نہیں جو بالی ووڈ کی فلموں کے ذریعے ہماری نسلیں دیکھ دیکھ کر اپنے دل میں عجیب عجیب امیدیں پال لیتی ہیں۔

کسی انڈین فلم کا اسکرپٹ ہوتا تو آج اس جاپانی لڑکی سے میرے چار بچے ہوتے، جن آنکھیں بڑی اور ناک پھینے ہوتے۔ اور دنیا کہتی، ہیپی برتھ ڈے ٹو یو، فری مینز کامن خالصتاً مردانہ ہاسٹل تھا کہ صرف میل اسٹوڈنٹس کے لیے تھا۔ اس لیے اسکے کمرے خاص طور سے گندے اور بدبودار تھے۔ سیلن زدہ راہداریوں کے دونوں اطراف چھوٹے چھوٹے کال کوٹھڑی جتنے کمرے، جن میں ایک سنگل بیڈ، اور دو بائی تین فٹ کی میز کی جگہ بنائی گئی تھی۔

فرش پر گاڑھے سبز رنگ کا سستا اور پتلا قالین تھا، جس میں جانے کس زمانے کے جراثیم تھے۔ مگر میرا حال فیس بک کے ان نوجوانوں جیسا تھا، جن کو شادی کے لاکھ مسئلے بتاؤ، انکی رال بہتی اور بانچھیں کھلی رہتی ہیں۔ زندگی میں اگر میں نے چند ایک خواہشیں اپنے لیے کیں تو ان میں سے ایک انگلینڈ کی کسی یونیورسٹی میں اس ماحول میں سانس لینا تھا، کہ جہاں سے جدید علم و سائنس کے سوتے پھوٹے تھے۔

علم و تحقیق کی اس فضا کو محسوس کرنا کہ جس نے اہل مغرب کو خانقاہیت سے نکال کر ستاروں سے آگے جانے پر گامزن کردیا۔ اگر اختصار سے اس خواہش کو بیان کروں تو گوریوں کی نیلی آنکھوں اور سڈول ٹانگوں کے جو مناظر تارڑ جیسے رائیٹرز نے میری جنریشن کو دکھائے تھے، اس پر اپنی زاتی تحقیق سے تھیسس لکھنا۔ لیسٹر شہر چھ سو ملین برس پرانے ایک آتش فشاں پہاڑ کی باقیات پر آباد ہے۔

بقول کسے یہ آتش فشاں اب بھی کسی وقت انگڑائی لے سکتا ہے۔ مگر سچ پوچھیے تو شروع میں یہ تعارف سن کر جو ڈر لگا، وہ چند روز میں سینکڑوں آتش فشانیوں اور حشر سامانیوں کے سامنے ماند پڑ گیا۔ بھلے سے ایک اور آتش فشاں پھٹ بھی پڑتا تو کونسا قیامت آ جاتی، لاہور کے مضافاتی گاؤں میں ایک بزرگ "کرم اللہ شاہ" صاحب کی قبر پر ہر سال میلہ لگتا ہے۔ اسکو کرمولے شاہ کا میلہ بھی کہا جاتا ہے۔

ہاوسنگ کالونیوں اور بڑھتی آبادیوں نے اب اس گاؤں کو بھی گنجان اور سنسان کردیا ہے۔ ورنہ اس گاؤں کے میلے پر بڑی رونق ہوا کرتی تھی۔ اسی قبر پر تب سے ایک مزار اور ایک چبوترہ نما احاطہ چلا آتا ہے، جس میں ایک صدی پرانا بوڑھ کا درخت زمین پر اپنی لاٹھیاں ٹکائے آخری سانس لے رہا ہے۔ تب یہ بوڑھ بھی کم بوڑھا ہوا کرتا تھا، جب اس دربار کے ساتھ واقع سرکاری اسکول میں مجھے پہلی جماعت میں داخل کروایا گیا۔

اس اسکول کی عمارت جو چند کمروں پر مشتمل تھی، کم ہی استعمال ہوتی تھی کہ بوڑھ کا گھنا درخت ہی بچوں کو گرمیوں میں چھاؤں دیا کرتا تھا۔ بوڑھ کے درخت کے نیچے ٹاٹ پر بیٹھ کر میں نے اپنی زندگی کی پہلی چار جماعتیں پڑھیں۔ درخت کے گردا گرد بنے چبوترے سے زرا دور کھیتوں سے پہلے گاؤں کا چھپڑ ہوا کرتا تھا۔ جس میں سارا دن گاؤں کی بھینسیں تیرا کرتی تھیں۔

کبھی کبھی نئے اور پرانے نمبرار کے لڑکے بھی اس چھپڑ کنارے لڑ لیا کرتے تھے اور اسکول کے بچوں کو تفریح مل جایا کرتی تھی۔ لیسٹر شائر کی لیسٹر یونیورسٹی میں پہلے دن مجھے اپنے پہلے اسکول کا وہ چبوترا، گاؤں کا چھپڑ، بوڑھ کا درخت، کرمولے شاہ صاحب کی قبر بہت یاد آ رہی تھی۔ ایاز کی طرح میری اصل وہی بوڑھ کا درخت اور کرمولے شاہ کی قبر کنارے گاؤں کا چھپڑ تھی۔

گوروں کا علم مجھے چاہے کتنی کہکشاؤں سے آشنا کروا دیتا، میرے پاؤں میں لگی اس گاؤں کی مٹی ہی میری شناخت تھی۔ مجھے انگلستانی درسگاہوں سے علم ضرور چاہیے تھا، مگر اپنی شناخت کی قیمت پر نہیں، وقت ہی نے فیصلہ کرنا تھا کہ گورے کے علم کا رعب مجھے میرے دیہاتی ماں باپ سے کتنا دور کرتا ہے؟ فی الحال تو مجھے بھوک لگ رہی تھی، اور میں ہاسٹل کے باہر علی ترکی کے "المشہور برگر" کھانے جا رہا تھا۔

اگلے دنوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ تقریبا ساری انگلستانی یونیورسٹیوں کے کنارے ہر فاسٹ فوڈ والے کا نام علی ہی ہوتا ہے اور وہ ترکی سے ہوتا ہے، اور وہ بہترین بن کباب، اور فرائز بناتا تھا۔

Check Also

Fahash Tarkari

By Zubair Hafeez