Darasgah Ya Qatal Gaah
درسگاہ یا قتل گاہ
آر اے بازار لاہور میں ہائی اسکول کی آٹھویں کی جماعت کا کمرہ تھا۔ تیسرے پیریڈ کا استاد سبق یاد نہ کرنے والے لڑکوں کو سامنے اپنی میز کے پاس کھڑا کر چکا تھا۔
ایک مضبوط قد کاٹھ کا لڑکا میز کے ایک جانب کھڑا تھا۔ "مجرموں" میں سے ایک کو سامنے لایا جاتا اور میز کے پار سے وہ لڑکا سبق یاد نہ کرنے والے مجرم کے بازو کس کے پکڑ لیتا اور اپنی جانب زرا کھینچ لیتا۔ میز کے پیچھے کھڑا استاد ہاتھ میں چار فٹ لمبا بانسی بید پکڑے شڑاپ شڑاپ لڑکے کی پیٹھ پر ضربیں لگاتا اور کمرہ مضروب کی چیخوں سے گونجنے لگتا۔
یہ معمول کا سین تھا۔ اس لیے سب اسے کیژوئل لے رہے تھے، استاد، مجرمین، اور ہمسایہ کلاسوں کے لڑکے جن تک چیخیں جا رہی تھیں۔ مگر اس معمول میں اس دن ایک خلاف معمول رکاوٹ آئی۔ ہیڈماسٹر کی طرف سے ہرکارہ آیا کہ فلاں ولد فلاں کی ملاقات آئی ہے۔ کارروائی تھوڑی دیر کے لیے رک گئی۔ استاد نے نشہ ٹوٹتے نشئی کی طرح اس فلاں بن فلاں کو دیکھا جس کی وجہ سے نسل نو کی تراش خراش رک گئی تھی، اور خشمگیں نگاہوں کے اشارے سے اس کو جانے کا کہا۔
جیسے ہی فلاں بن فلاں کمرے سے باہر نکلا تو اس کا دادا جو اس سے ملنے آیا تھا وہ ہیڈ ماسٹر کے دفتر سے ادھر کمرہ جماعت کے باہر ہی پہنچا ہوا تھا۔ دادا نے بتایا کہ ہیڈ ماسٹر سے بات ہوگئی ہے تمہارے ماموں کی شادی پر جانے کی خواہش پوری ہو جائیگی۔ پوتے نے خوشی سے سر ہلایا۔ دونوں کسی جلدی میں تھے۔ دادا بار بار کنکھیوں سے کمرہ جماعت کی طرف دیکھ رہا تھا، جہاں سے وقفے وقفے سے دلدوز چیخیں اسکے کانوں تک آ رہی تھیں۔ دونوں دادا پوتے نے وہیں کھڑے تھوڑی دیر اور بات کی اور پھر بچھڑنے کا فیصلہ کیا۔
دادا اپنے پوتے سے بےپناہ پیار کرتا تھا، جیسے ہی پوتا واپس "قتل گاہ" کی جانب بڑھا، اسکا دل شدت سے ڈوبا۔ اس نے آواز دے دی۔ پوتا واپس مڑا تو دادا نے پوچھ ہی لیا، کیا تم نے بھی سبق یاد نہیں کیا؟ کیا تمہیں بھی مار پڑے گی؟ پوتے نے معصومیت سے انکار کیا، نہیں آج تو نہیں، مگر کبھی کبھی مجھے بھی۔ دادا کا چہرہ زرد تھا، خوف اسکی آنکھوں میں تھا۔ پوتا حیرانی سے دادا کو دیکھتے واپس اپنی جماعت کی جانب مڑ گیا۔
آج برسوں بعد دادا کا وہ خوفزدہ چہرہ پھر سے میرے سامنے پھر گیا۔ کیونکہ وہ فلاں ولد فلاں میں ہی تھا۔ تب مجھے ایک باپ کے درد کا بھی اندازہ نہ ہو سکتا تھا، چہ جائیکہ اولاد کی اولاد کا دکھ محسوس کرنے والے دادا کا۔ جو اپنے جگر کے ٹکڑے کو ایک جلاد استاد کے کمرے میں جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ یہ کتنا مشکل ہے؟ کسی بھی باپ سے پوچھ لیں۔