Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khursheed Begum
  4. 26 August 1941

26 August 1941

26 اگست 1941

وہ اہم تاریخی دن ہے جب ہندوستان کے مختلف گوشوں سے محلہ اسلامیہ پارک لاہور میں ایک چھوٹی سی کوٹھی کے ایک کمرے میں 75 نفوسِ قدسی اکٹھا ہوئے اور 75 روپے 74 پیسے کے قلیل سرمایہ سے ایک دینی تحریک کی بنا ڈالی۔ جسے دنیا آج جماعت اسلامی کے نام سے جانتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس جماعت کا مقصد وجود کیا تھا؟ اگر نہیں جانتے تو آئیے بانیٔ جماعت سے پوچھ لیتے ہیں۔

مفکر اسلام سید ابو الاعلیٰ مودودی اپنی کتاب "جماعت اسلامی کا مقصد، تاریخ اور لائحہ عمل" میں لکھتے ہیں"جماعت جس مقصد کے لئے قائم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کے پورے نظام کو اس کے تمام شعبوں، فکر و نظر، عقیدہ و خیال، مذہب و اخلاق، سیرت و کردار، تعلیم و تربیت، تہذیب و ثقافت، تمدن و معاشرت، معیشت و سیاست، قانون و عدالت، صلح و جنگ اور بین الاقوامی تعلقات سمیت خدا کی بندگی اور انبیا کی ہدایت پر قائم کیا جائے۔ جس چیز کو ہم قائم کرنا چاہتے ہیں اس کا جامع نام قرآن کی اصطلاح میں: دینِ حق ہے۔ یعنی وہ نظام زندگی (دین) جو حق (پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق اللہ کی بندگی و اطاعت) پر مبنی ہو۔ اس مقصد کے حصول کی جدوجہد کا نام ہم نے اقامتِ دین، شہادتِ حق اور تحریکِ اسلامی رکھا ہے۔ ہم جب اقامتِ دین کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب محض مسجدوں میں دین قائم کرنا یا چند مذہبی عقائد اور اخلاقی احکام کی تبلیغ کر دینا نہیں ہوتا، بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ گھر اور مسجد، کالج اور منڈی، تھانے اور چھاؤنی، ہائی کورٹ اور پارلیمنٹ، ایوان وزارت اور سفارت خانے، سب پر اُس ایک خدا کا دین قائم کیا جائے، جس کو ہم نے رب اور معبود تسلیم کیا ہے اور سب کا انتظام اُسی ایک رسول کی تعلیم کے مطابق چلایا جائے، جسے ہم اپنا بادی مان چکے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہماری ہر چیز کو مسلمان ہونا چاہئے۔ اپنی زندگی کے کسی پہلو کو بھی ہم شیطان کے حوالے نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہاں سب کچھ خدا کا ہے شیطان کا کوئی حصہ نہیں"۔

میرے عزیز ہم وطنو! اس عظیم نصب العین نے مجھے مقناطیس کی طرح جماعت اسلامی میں کھینچ لیا۔ اس مقصدِ زندگی سے اختلاف کی کوئی وجہ میرے پاس موجود نہیں تھی۔ قرآن وسنت کی تعلیم کے یقیناََ اور بھی ذرائع میسر آئے مثلاََ والدین اور اساتذہ، مدارس سے بھی تعلق رہا۔ لیکن محسوس ہوا سبھی محسن حالات کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدانِ حیات میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئی تو گویا اجتماعیت سے جڑ گئی۔ زندگی با مقصد ہوگئی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ قیادت ملی۔ زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کے لئے بلند پایہ علما کا لٹریچر میسر آگیا ہے۔ ٹیلی ویژن کو وقت دینے کی ضرورت نہیں۔ ہمہ وقت حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کا ایک ذریعہ ہاتھ آگیا۔ دکھ درد میں شریک ہونے والے، دعائیں کرنے والے ساتھی مل گئے۔

عزیزانِ من! میرا دل چاہتا ہے کہ جماعت اسلامی کے طریقِ کار سے آپ کو آگاہ کروں کہ جو میں جان چکی آپ اس سے محروم کیوں رہیں؟ تو پھر جان لیجئے کہ جماعت کا طریقِ کار منظم اور باضابطہ ہے۔ جو لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں ان کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان کے لئے تربیت گاہیں قائم کی جاتی ہیں اور انھیں اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کروایا جاتا ہے۔ یہ تربیت یافتہ لوگ جب تبلیغ کی غرض سے معاشرے میں جاتے ہیں، تو لوگ ان پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں لیکن وہ کسی بات کا جواب دیئے بغیر اپنا مشن جاری رکھتے ہیں۔ جس طرح ان کے نفس تزکیہ حاصل کرتے ہیں۔

جماعت کا سارا نظام جمہوری ہے ناظمین سے لے کر امیرِ جماعت تک سب کا انتخاب ارکان کے ووٹوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ ضلع کی سطح سے لے کر مرکز تک تمام فیصلے باہم مشورے سے کئے جاتے ہیں۔ مجالس شوریٰ کا انتخاب بھی ارکان اپنے ووٹوں کے ذریعے کرتے ہیں۔ جماعت کے اندر مختلف شعبے موجود ہیں۔ مثلاً شعبہ تعلیم، شعبہ آئی ٹی، شعبہ علم و ادب، شعبہ نشرو اشاعت، الخدمت فاؤنڈیشن۔ جماعت کا اپنا میڈیا سیل ہے جو سوشل اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اشاعت دین اور فریضہ اقامت دین کا کا کام منظم طریقے سے کر رہا ہے۔ اسی طرح الخدمت فاونڈیشن بر ناگہانی آفت میں مظلومین کی مدد کے لیے نہ صرف وطنِ عزیز کے ہر گوشے میں پہنچتی ہے، بلکہ بیرون ملک بھی خدمت خلق میں مصروف نظر آتی ہے۔ کہئے پاکستان میں ہے کوئی ایسی جدید جمہوری نظام کی حامل جماعت؟

میرے پیارے ہم وطنو! آپ نے جماعت اسلامی کو قریب سے نہیں دیکھا۔ اس کے مقصدِ عظیم سے آگاہ نہیں ہوئے اس لئے آپ اس سے دور ہیں۔ میں جماعت کے یوم تاسیس کے موقع پر آپ کو دعوت دیتی ہوں کہ اس جماعت کے قریب آئیں، اپنا مقصدِ حیات پہچانیں اور اس کے حصول کی جدوجہد میں شامل ہو جائیں۔ رہنمائی کے لئے عرض ہے کہ کسی رکن جماعت یا جماعت کے کسی مرکز سے مولانا مودودی کا تحریر کردہ کتابچہ شہادتِ حق یا ہدایات حاصل کریں اور اس کا مطالعہ کریں۔ ویسے مولانا کا بہت سا لٹریچر نیٹ پر بھی موجود ہے۔ جب چاہیں استفادہ کر سکتے ہیں۔ ان اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گی۔

حیران و پریشان ہے بہارِ گلشن
خطرے میں ہے اب عز و وقارِ گلشن

نادم بے بہت رنگِ چمن بھی جب سے
گلشن پر مسلط ہے غبارِ گلشن

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan