Qismat Par Inhesar
قسمت پر انحصار

مسلمان ہونے کے ناتے اچھی اور بری قسمت پر یقین رکھنا ہم سب پر فرض ہے۔ اس بنیادی عقیدے کی رو سے انسان کے پیدا ہونے سے لے کر دنیا سے رخصت ہونے تک کے معاملات مثلاً پیدائش کا وقت اور مقام، والدین اور رشتہ داروں کا تعین، رہائشی علاقہ جہاں وہ آنکھ کھولتا ہے، موت کا وقت اور جگہ اور دیگر، تمام ایک کتاب میں درج ہیں اور ان تمام سے روگردانی ناممکن ہے اور انہی حدود وقیود کے اندر رہتے ہوئے حیات سے موت کا سفر انسان طے کرتا ہے۔ لیکن دنیا میں انسانی ترقی یا تنزلی کا دارومدار محنت پر ہے۔
سورت النجم آیت نمبر 39 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے "انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے"۔ اس آفاقی بات کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ لاہور ریلوے سٹیشن پر کھڑا شخص کراچی والی گاڑی میں بیٹھ کر کبھی پشاور نہیں ں پہنچ سکتا۔ پشاور جانے کے لئے پشاور والی گاڑی کا رخ کرنا پڑے گا۔ یہ کبھی ہو نہیں سکتا کہ آپ کراچی والی گاڑی میں بیٹھ کر راولپنڈی پہنچ جائیں۔
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے محنت اور کوشش سے جوڑا ہے۔ جو جتنی محنت مشقت کر لے گا دنیاوی لحاظ سے اتنی ترقی کرے گا۔ قومی کرکٹ ٹیم میں بھرتی ہو جانا یقیناً قسمت سے ہوتا ہے مگر کریز پر جا کر رنز کرنے میں قسمت کی بجائے بلے کا کردار ہوتا ہے۔ آپ کبھی سٹار تیز بالرز شعیب اختر کی کہانی پڑھیں۔ راولپنڈی میں مورگاہ سے صدر کرکٹ گراؤنڈ تک تقریباً سات کلو میٹر کا فاصلہ ہے جو شعیب ہر روز دوڑ کر آرمی سٹیڈیم جاتے تھے اور واپس بھی دوڑ کر جاتے تھے۔
خود ان کے بقول، جب قومی ٹیم کی نمائندگی کے ٹرائل کے لئے لاہور گئے تو کرایہ کے پیسے نہ ہونے کے باعث لاہور ریلوے سٹیشن سے ماڈل ٹاؤن تک بھاگ کر گئے جو تقریباً 15 کلومیٹر کا فاصلہ بنتا ہے۔ لیکن ان انتھک محنت کا اللہ تعالیٰ نے صلہ تب دیا جب مسلسل دو گیندوں پر راہول ڈریوڈ اور سچن ٹنڈولکر کو بولڈ کردیا جس کے بات وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچے اور انہیں راولپنڈی ایکسپریس کا خطاب دیا گیا۔
نوجوانوں کے لئے یہ بہت متاثر کن کہانی ہے۔ آج کی معاشرے میں ملا نے اسلام کی غلط تصویر پیش کی ہے اور ہر چیز کو قسمت سے جوڑ دیا ہے اور سامعین کے دل میں پیوست کر دیا ہے کہ خواہ کوئی کتنی ہی محنت کیوں نہ کرلے اگر قسمت اس کاساتھ نہ دے تو وہ کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔ یہ دعویٰ کلی طور پر جھوٹ میں مبنی ہے اور قرآن مجید کے اسلوب کے خلاف ہے۔ سورت الملک آیت نمبر 2 میں ارشاد ہے " وہ جس نے زندگی اور موت پیدا کی تاکہ جانچ ہو کہ تم میں سے کس کے اعمال اچھے ہیں"۔ اس آیت کی رو سے انسان کچھ حدود کے اندر آزاد ہے۔ اچھا اور برا راستہ چننے کا اختیار انسان کے پاس ہے، وگرنہ جانچ بے معنی ہوجائے گی۔ پورے پاکستان کا یہ مقبول جملہ ہے۔ رکشہ ڈرائیور کو کام نہ ملنے سے لیکر ایک تیسرے درجے کی کرکٹ ٹیم سے ہارنے تک سب قسمت کو دوش دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ حالانکہ ہر دو میں مسلسل محنت کرنے سے کمزوریوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
خدارا آنکھیں کھولیں اور اس دھوکے سے نکلیں۔ قسمت نے جن حالات و واقعات میں آپ کو ڈالا ہوا ہے ان میں بھرپور محنت کریں اور اچھی کارکردگی دکھائیں۔ ان تھک محنت ہی کامیابی کی کنجی ہے۔

