Friday, 22 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Sukarti Galiyan Aur Tang Hoti Sarken

Sukarti Galiyan Aur Tang Hoti Sarken

سکڑتی گلیاں اور تنگ ہوتی سڑکیں

میرا بیٹا تقریباََ بارہ سال بعد آئرلینڈ سے واپس بہاولپور آیا تو اسے بہت کچھ بدلا بدلا سا لگا۔ نئی عمارات، سڑکیں، ریلوئے اسٹیشن، ڈی ایچ اے دیکھ کر اسے بہاولپور کی ترقی کا احساس ہوا۔ جو ایک فطری بات ہے کہ انسان کو اپنی زمین سے محبت اس بات پر مجبور کردیتی ہے کہ یورپ کی رنگینیاں بھی اس کے سامنے ماند پڑ جائیں۔

ایک دن وہ مجھے کہنے لگا ابو جی! باقی تو سب ٹھیک ہے لیکن بہاولپور کی خوبصورتی کی وجہ تو اس شہر کی کشادگی کو قرار دیا جاتا تھا۔ مجھے ناجانے کیوں اب بہاولپور کی گلیاں، بازار اور سڑکیں تنگ تنگ اور چھوٹی چھوٹی کیوں لگتی ہیں؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب سکڑتی جارہی ہیں جبکہ فٹ پاتھ کا تصور تو سرئے سے نظر ہی نہیں آتا۔ بہاولپور کے خوبصورت فٹ پاتھ کہیں چھپ کر رہ گئے ہیں۔ شاید وہ ایک دھائی کے بعد یورپ سے آیا تھا۔ اس لیے وہاں کی سڑکوں اور گلیوں سے موزانہ کر رہا تھا۔

میں نے اسے بتایا کہ سڑکیں، گلیاں، بازار سب کچھ وہی ہے بس ذرا ہماری ٹریفک اس کی پارکنگ اور عوام کا رش بڑھ گیا ہے جسکی وجہ سے تمہیں ایسا کچھ محسوس ہو رہا ہے۔ چند دن یہاں گزارنے کے بعد اس نے مجھے بتایا کہ میں نے غور سے دیکھا ہے یہ سڑکیں، گلیاں اور بازر عوام کے رش یا ٹریفک کی زیادتی کی وجہ سے نہیں سکڑ رہے ہیں بلکہ ان کی پیمائش تو وہی ہے مگر ناجائز تجاوزات کی وجہ سے سڑکیں اور گلیاں آدھی رہ گئی ہیں جبکہ خوبصورت فٹ پاتھ بھی اپنی جگہ موجود ہیں مگر ان پر بازار سج چکے ہیں اس لیے نظر نہیں آتے۔

شہر کے کسی بازار میں اپنی گاڑی پر جانے کا تصور ختم ہو چکا ہے۔ پہلے جامع مسجد چوک پر گاڑی کھڑی کرنے کی وسیع جگہ موجود تھی جو اب غائب ہو چکی ہے۔ شاہی بازار میں ناجائز تجاوازت کو ایک لائن کھنچ کر محدود کر دیا گیا تھا مگر وہ لائن بھی عبور ہو چکی ہے۔ یہی صورتحال سرکلر روڈ، عید گاہ روڈ اور اندرون شہر بازاروں میں بھی نظر آتی ہے۔ پولیس کے موجود کار لفٹرز بھی بےبس دکھائی دیتے ہیں۔

بہاول وکٹوریہ ہسپتال اور بس اسٹینڈ کے سامنے سے گاڑی صیح سلامت لے جانا کمال مہارت ہے۔ جیل روڈ جو کبھی ویران پڑا رہتا تھا اب ٹریفک کے رش اور اس پر موجود شادی ہالوں کی پارکنگ کی باعث کئی دفعہ ٹریفک جام کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہر شادی گھر کی اپنی پارکنگ نہ ہونے سے تمام گاڑیوں کی پارکنگ سڑکوں کے دونوں اطراف کر دی جاتی ہے۔ پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ ہیوی پبلک ٹرانسپورٹ بھی اسی راستے سے گزر کر جاتی ہے جن کے جگہ جگہ ٹھہرنے اور سواریاں اتارنے اور سوار کرانے کی وجہ سے ٹریفک بار بار رک جاتی ہے اور چھوٹے موٹے حادثات تو روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔

وہ حیران تھا کہ بغیر پارکنگ ان شادی گھروں کو کام کرنے کی اجازت کیسے دے دی جاتی ہے۔ پھر ٹریفک پارکنگ اس بےترتیب طریقہ پر کی جاتی ہے کہ گاڑیاں ایک دوسرے کی وجہ سے پھنس جاتی ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے ساتھ ساتھ ایک طویل قطار فروٹ فروشوں کی ریہڑیوں کی کھڑی نظر آتی ہے جو آدھی سڑک پر قابض ہیں اور پھر ان سے خریداروں کا رش الگ سے ہوتا ہے۔ پارکنگ کے یہ مسائل سرکلر روڈ، عید گاہ روڈ، ملتان روڈ، اور احمدپور روڈ پر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

دراصل ہماری سڑکیں، گلیاں اورفٹ پاتھ تنگ نہیں ہوئے ہمارے دل تنگ ہو گئے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے راستے تنگ اور بند کرکے اپنے آپ کو ہی تکلیف میں ڈال رہے ہیں۔ آج فٹ پاتھ بازیاب کرانا وقت کی اہم ترین ضرورت بنتا جارہا ہے۔ یہی کشادگی تو بہاولپور کی پہچان ہوا کرتی تھی جو ناجائز تجاوازت کے نیچے دب کر کہیں غائب ہو چکی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ صرف بہاولپور میں ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر ہر شہر میں ایسا ہی ہے۔ بےترتیب ٹریفک، سڑکوں پر پارکنگ، فٹ پاتھوں کی گمشدگی اب شاید عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اس پارکنگ کے باقاعدہ ٹھیکے دئیے جاتے ہیں اور ان ناجائز تجاوازت والوں سے بلدیہ کی جانب سے تہہ بازاری وصول کی جاتی ہے۔ اس طرح یہ سب قانونی حق بنتا جارہا ہے۔ پولیس کی ایک بڑی نفری ٹریفک نظام کے لیے مختص ہے لیکن ان کی توجہ ٹریفک کنٹرول کرنے کی بجائے زیادہ تر موٹر سایکل سواروں کے چالان کرنے پر ہوتی ہے۔ اگر ہم سب مل کر اس بات پر تھوڑی سی توجہ دے دیں تو ہماری سڑکوں کی کشادگی پھر سے بحال ہو سکتی ہے۔ ٹریفک کے الیکڑک اشارے لگے ہوئے تو ہیں مگر یا تو خراب ہیں یا پھر جلائے ہی نہیں جاتے۔

کہتے ہیں کہ جاپان میں یہ رواج عام ہے کہ جو ملازمین پہلے آتے ہیں، وہ گاڑی دور پارک کرتے ہیں تاکہ دیر سے آنے والے عمارت کے قریب پارکنگ کر سکیں اور دیر سے آنے والوں پر دباؤ نہ ہو جس سے وہ عمارت میں فوراََ داخل ہو پاتے ہیں۔ اس بظاہر چھوٹے سے رویے سے باہمی تعاون کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ جاپان کے لوگ کام کرنے کی جگہ پر ہم آہنگی، ہمدردی، اور ٹیم ورک کی اہمیت کے قائل ہیں، جس میں انفرادی فائدے کی بجائے اجتماعی بھلائی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جی ہاں! یہ قوموں کی سوچ کا فرق ہے جو ان کی ترقی کاراز بھی ہے۔

ہمیں بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسی سوچوں کو اپنانے اور ٹریفک کا شعور بیدار کرنے کی ازحد ضرورت ہے۔ ٹریفک قوانین کے بارے میں تو تعلیمی نصاب میں ایک مضمون کا اضافہ کرنا پڑے گا تاکہ ہماری قوم بھی جاپانیوں کی طرح ایک ڈسپلن سوچ کی حامل ہو سکے۔

آذر بیجان جانے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ کوئی پیدل شخص سڑک پار کرتا نظر نہیں آتا ہر چند قدم کے بعد انڈر بریج بنائے گئے ہیں۔ وہاں کے فٹ پاتھ اتنے چوڑے ہیں کہ وہ ایک پوری سڑک محسوس ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو پورے شہر میں زیبرا کراسنگ ہی دکھائی نہیں دیتی بلکہ اس کا تصور ہی نہیں ہے۔ سرکلر روڈ بہاولپور پر آے دن ٹریفک حادثات اس بات کے متقاضی ہیں کہ چند زیبرا کراسنگ یا اور برج فوری بنائے جائیں اور اپنے گمشدہ فٹ پاتھ تلاش کرکے پیدل چلنے والوں کی زندگی آسان بنائیں۔۔

اس بارے میں میرے ایک دوست نے چند تجاویز دی ہیں کہ سب سے پہلے ہیوی پبلک ٹرانسپورٹ کے شہر میں سے گزرنے پر پابندی لگائی جائے اور بسوں، پبلک ٹرانسپورٹ، منی ویگن سمیت بڑی گاڑیوں کو رنگ روڈ کے ذریعے آنے اور جانے کا پابند کیا جائے اگر ملتان، احمدپور اور رحیم یار خان کی ٹریفک ادھر سے جاسکتی ہے تو پھر حاصل پور، بہاولنگر اور یزمان کی ٹریفک یہ راستہ اختیار کیوں نہیں کرتی؟ سڑکوں پر پارکنگ ایرا کے نشانات لگائے جائیں اور پارکنگ ایرا کے علاوہ گاڑی کھڑی نہ کرنے دی جائے۔ الیکٹرک اشارہ درست کئے جائیں۔ سڑکوں پر پارکنگ کے ٹھیکے نہ دئیے جائیں۔ کسی شادی گھر کو بغیر پارکنگ ایرا بنائے کام کی اجازت نہ دی جائے۔

تمام فٹ پاتھ واگزار کرائے جائیں اور ان لوگوں کے لیے کچھ مخصوص جگہیں مقرر کی جائیں جہاں وہ اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں۔ بازاروں میں تجاوزات کے لیے ایک ریڈ لائن مقرر کی جائے۔ کاروں کی طرح چنگ چی رکشوں کو بھی غلط پارکنگ پر لفڑ کے ذریعے اٹھایا جائے۔ رش والے بازاروں کو ناصرف دن کے وقت ون وئے کیا جائے بلکہ اس پر سختی سے عملدرآمد بھی کرایا جائے۔ اندرون شہر گلیوں میں غیر ضروری تھڑے اور شیڈ ختم کئے جائیں۔ بڑی سڑکوں پر موٹر سایکل والوں کی الگ لین بنائی جائے۔ پیدل چلنے والوں کے لیے نہایت رش والی جگہ پر زیبرا کراسنگ بنائے جائیں بلکہ بی وی ایچ کے سامنے تو اور بریج یا انڈر بریج بننا بے حد ضروری ہو چکا ہے۔

میرا خیال یہ ہے کہ ان تجاویز کے ساتھ ساتھ ٹریفک قوانین کے بارئے میں عوام الناس کو آگاہی دینے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ جس کے لیے ناصرف شروع سے ہی ٹریفک قوانین کو ہمارے تعلیمی نصا ب کا حصہ ہونا چاہیے بلکہ ہمارے میڈیا کی جانب سے بھی اس بارئے میں رہنمائی فراہم کرنے کے پروگرام ہونے چاہیں۔ یقیناََ ارباب اختیار کو بھی ان سب مشکلات کا ادراک ہے اور وہ اس بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہیں۔ وقتاََ فوقتاََ ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن بھی کئے جاتے ہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ شہر کی ٹریفک کے مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کے لیے انتظامیہ، شہریوں، صحافیوں، دانشوروں، علماء کرام اور سیاستدانوں کے نمائندوں کی ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جو ان چھوٹے چھوٹے مسائل کو بروقت حل کر سکیں۔ ناجائز تجاوزات اور بازار تنگ کرنے کے مشترکہ نقصانات سے آگاہی بھی دینے کا فریضہ اس کمیٹی کے لوگوں کے ذمہ ہی ہونا چاہیے۔

دوسری جانب ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ دوسرے کی تکلیف کا احساس کرتے ہوئے انفرادی اور اجتماعی طور پر قانون پر پابندی کو روز مرہ زندگی میں اپنا شعار بنا لیں۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ناجائز تجاوزات دراصل دوسروں کے حقو ق سلب کرنے کے مترادف ہوتی ہیں۔ ذرا سوچئے کہ یہ ہمارے شہر کی خوبصورتی اور کشادگی کا معاملہ ہے اور شہر کی خوبصورتی بحال کرنا اور قائم رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے پیارے شہر کی یہ سکڑتی گلیاں اور تنگ ہوتی سڑکیں ہماری توجہ چاہتی ہیں۔

Check Also

Ikhlaqi Aloodgi

By Khalid Mahmood Faisal