Mitti Ke Bartan Aur Kooza Gari Ka Zawal
مٹی کے برتن اور کوزہ گری کا زوال
اس قدر گوندھنا پرتی ہے لہو سے مٹی
ہاتھ گھُل جاتے ہیں پھر کوزہ گری آتی ہے
سکول کے زمانے میں معاشرتی علوم ایک بڑا دلچسپ مضموں ہوتا تھا۔ جسے بچے بڑی خوشی خوشی پڑھتے تھے۔ اس مضمون میں پاکستان کے مختلف علاقوں کی وجہ شہرت بھی بتائی جاتی تھی جو واقعی بڑی دلچسپی رکھتی تھی۔ اس مضمون میں ہمارے شہر احمد پور شرقیہ کی وجہ شہرت وہاں کے بننے والے "مٹی کے برتن" اور "کھسے " (نفیس جوتی) بتاے جاتے تھے جو دنیا بھر میں اپنی خوبصورتی اور نفاست کی باعث مشہور تھے۔
جب ہم ذرا بڑے ہوئے تو محسوس ہوا کہ یہاں کی وجہ شہرت آموں، سوہن حلوےِ ہاتھ کی کڑھائی کے کپڑوں، گلدستوں اور نفیس جوتے "کھسے" کے علاوہ یہاں کی کوزہ گری، ظروف سازی اور مٹی کے برتن بنانے کا فن دنیا بھر سے مختلف اور منفرد ہے۔ گو کوزہ گری اور ظروف سازی کا فن انسانی ارتقا، کے ساتھ ساتھ ہی صدیوں پہلے سے ترقی کرتا چلا آرہا تھا مگر ریاست بہاولپور کے دور حکومت میں اس فن پر بھرپور توجہ دی گئی اوراسی سرپرستی کی باعث برتنوں کی تخلیق کا یہ فن یہاں اپنے عروج کی بلندیوں پر جا پہنچا اور مٹی کے برتنوں کا گھریلو استعمال یہاں کی ثقافت اور تہذیب کا حصہ بن گیا۔
بہاولپور کے علاقوں میں اس صنعت کا عروج صرف اسکے پشت در پشت سے بنانے والوں کی محنت اور فنی صلاحیت کی ہی وجہ سے ہی نہ تھا بلکہ یہاں کی زرخیز مٹی کی معاونت بھی ایک اہم وجہ تھی چولستان میں خشک دریا ہاکڑہ کی تہذیب کے جو آثار اور پرانے برتنوں کی ٹھیکریاں ملی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فن اور چولستان کی خاص مٹی کی کی بدولت ہزاروں سال قبل بھی اپنے بام عروج پر تھا۔ اس لیے ظروف سازی کا یہ فن یہاں کے لوگوں میں وراثتی طور پر منتقل ہوتا چلا آیا تھا گو وقت کے ساتھ ساتھ مٹی کے برتنوں کا استعمال ترک ہونے سے یہ فن دم توڑتا جا رہا ہے اور ہمارا علاقائی تاریخی اور ثقافتی ورثہ بھی ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے مگر آج بھی یہ کوزہ گر اور ظروف ساز یہاں موجود ہیں اور اپنے فن کو زندہ اور اسکے کے معیار کو برقرار رکھے ہوے ہیں۔
احمد پور شرقیہ کے راستے میں جگہ جگہ اور خاص طور پر کینچی موڑ پر آج بھی یہ پرانی ظروف سازی دیکھنے کو مل جاتی ہے جہاں یہ فن کوزہ گری کسی نہ کسی شکل میں آج بھی زندہ ہے "چک" کو پاوں سے گھما کر گوندھی ہوئی مٹی کو ہاتھوں اور انگلیوں کے پور سے بڑی مہارت کے ساتھ نفیس برتنوں اور سجاوٹی اشیا ٔ میں ڈھالنے والے فن کار کو "کمہار" کہا جاتا ہے۔ یہ فنکار آج بھی اس قدیم فن کو زندہ رکھے ہوے ہیں اور چولستانی مٹی کو گوندھ کر فن پاروں میں ڈھال رہے ہیں۔
گھڑے، دیگچیاں، پیالے، گل دان، صراحیاں، بچوں کے کھلونے اور بے شمار اشیاُ پہلے کچے اور پھر "آوی "میں پکا کر رنگ وروغن اور نقش ونگار سے مزین کرتے ہیں جس سے ان کی خوبصورتی کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ریاست بہاولپور کے حکمران اس فن کے قدردان تھے۔ اسلیے منیر شہید چوک احمد پور شرقیہ اور فرید گیٹ بہاولپور میں ایک کنارے پر ایک جدید طرز کا ہینڈی کرافٹ مرکز قائم تھا جہاں پر مٹی کے یہ شاہکار، نفیس، جالی دار اور خوبصورت ظروف بڑی خوبصورتی سے سجاے گئے تھے جنہیں دیکھنے اور خریدنے لوگ دور دور سے آتے تھے۔
یہ ظروف جو گھریلو استعمال کے ساتھ ساتھ گھروں میں ڈیکوریشن کے لیے بھی سجائے جاتےاور علاقائی سوغات کے طور پر دوستوں کو تحفہ کے طور پر بھجواے جاتے تھے۔ احمد پور شرقیہ میں چوک منیر شہید پر ایک بزرگ بھٹی صاحب نے بڑے عرصہ تک اس مشن کو جاری رکھا میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ظروف سازی کا اتنا باریک اور نفیس کام دنیا میں کہیں نہیں ہوتا اس لیے بیرون ملک بھی ان کی مانگ بہت ہے۔
ان کے مطابق احمد پور شرقیہ کے ایک ماہر نے مٹی کی گھڑی بنائی تھی جو باقاعدہ چلتی اور ٹائم بتاتی تھی اسے جب نواب بہاولپور کو پیش کیا گیا تو وہ بہت خوش ہوے اور اسے بڑے انعام سے نوازہ گیا تھا۔ اسی طرح دنیا کا سب سے چھوٹا مٹی کا برتن بنانے کا اعزاز بھی احمد پورشرقیہ کے ایک فنکار اور دستکار عالم محبوب صاحب کو حاصل ہے انہوں نے اور ان کے بیٹے ابراہیم عالم نے دنیا کا سب سے چھوٹا مٹی کا برتن بنا کر ایک عا لمی ریکارڈ بھی قا ئم کردیا ہے جسے آج تک کوئی چیلنج نہیں کر سکا جس کا مظاہرہ انہوں نے کچھ سال قبل لوک ورثہ میلہ میں کیا اور سب کے سامنے ہاتھوں سے بنا کر دکھایا تھا اورسب کو بتایا کیونکہ قدرتی مٹی سے بناے گئے برتن اس دور میں رفتہ رفتہ ختم ہوتے جارہے ہیں۔ جب آرٹسٹ کی قدر نہ کی جاے تو آرٹ خود ہی دم گھٹ کر مر جاتا ہے۔
آج مٹی کے برتنوں اور کھلونوں کے قدردان اور سرپرست ہی نہیں رہے اس لیے ان لوگوں نے اپنی توجہ دوسری جانب مذکور کرلی ہے۔ آج اس پیشے سے وابستہ لاکھوں لوگوں جن کا روزگار اس پیشے سے وابستہ تھا مایوسی کا شکار ہوکر دوسرے روزگار تلاش کر رہے ہیں ان کا موقف ہے کہ گو آج بھی مٹی کے برتن ہماری ثقافت اور تہذیب کا لازمی جزو ہیں لیکن ہماری نئی نوجوان نسل اس سے دور ہوتی جارہی ہے اور ان برتنوں کے استعمال میں مسلسل کمی آرہی ہے اور جس سے اس ہنر کے ڈوبتے فن کا کوئی اچھا مستقبل نظر نہیں آتا یہی وجہ ہے کہ ظروف سازی کی یہ قدیم صنعت زوال پذیر ہے۔
ایک برتن کی تیاری میں محنت اور لاگت بہت زیادہ کرنی پڑتی ہے مگر اس کے مقابلے میں آمدنی اور معاوضہ انتہائی کم ملتا ہے جو گزر اوقات کے لیے ناکافی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قدیم صنعت کو ہر سطح پر حکومتی سرپرستی اور توجہ فراہم کی جاے اور ماہر کاریگروں کے ہاتھوں بنی مختلف النوع اشیاء نودرات کی صورت میں بیرون ملک برآمد کیا جاے تاکہ خطیر زرمبادلہ حاصل ہوسکے جو ان کی مالی مشکلات کم کردے اور وہ اپنے اجداد کے اس فن کو جاری رکھ سکیں۔
اس ہنر کے تحفظ اور تربیت کے لیے سرکاری سطح پر ایک سپیشل ہینڈی کرافٹ کا ادارہ قائم کیا جاےجو ان دستکاروں اور اس صنعت پر پوری توجہ دے اور ان کی برآمدات کے لیے رہنمائی فراہم کرئے جس سے یقیناََ ہماری ملکی معیشت بھی مضبوظ ہوگی اور چولستان کی ثقافت اور ورثہ بھی محفوظ کیا جا سکے گا۔
محکمہ آثار قدیمہ بھی دور رس اقدامات کے ذریعےاس سلسلہ میں ہنر مندوں کی حوصلہ افزائی کرکے اپنا اہم کردار ادا کر سکتا ہے دوسری جانب عوام الناس کو بھی دوبارہ ان برتنوں کے استعمال کی ترغیب دینی چاہیے اور نئی نسل کو ان کے فوائد سے آگاہ کرنا چاہیے کہ یہ برتن سستے ہی نہیں بلکہ انسانی صحت کے لیے بےحد مفید بھی ہیں۔ ان کا رواج دینا ہماری ثقافتی علامت بھی ہے۔ کیونکہ۔۔
اور بازار سے لے آےُ اگر ٹوٹ گیا
جام جم سے تو مرا جام سفال اچھا ہے