Gidh House
گدھ ہاوس
نوے کی دھائی میں ایک صبح نیویارک ٹائمز میں ایک تصویر شائع ہوئی جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اس تصویر میں جنگ زدہ اور قحط زدہ جنوبی سوڈان کی بھوک اور تھکن سے چور ایک بچی پہ ایک گدھ جھپٹنے کے لیے اس کی موت کا منتظر دکھائی دیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس فوٹو گرافر کو صحافتی عالمی ایورڈ ملا تو دوسری جانب چار ماہ بعد ہی اس فوٹو گرافر نے خود کشی کر لی۔
مرنے سے پہلے اس نے اپنے ایک سوسائیڈ نوٹ میں لکھا "میں بہت دکھی ہوں زندگی کا درد اتنا حاوی ہو چکا ہے کہ کسی لطف کا کوئی وجود نہیں رہا، بھوک سے بلکتے اور مرتے زخمی بچوں، ہلاکتوں، تابوتوں، لاشوں اور خون کے پیاسے پاگلوں کی زندہ تصویروں سے میرا دماغ آسیب زدہ ہوگیا ہے میں خوش قسمت ہوں گا اگر مر جاوں"۔
کہتے ہیں کہ جی ہاں وہ بچی یا بچہ اقوام متحدہ کے غذائی مرکز پہنچنے میں کامیاب تو ہوا مگر بخار کی شدت چل بسا۔ اس تصویر میں مجھے گدھ کو دیکھ کر احساس ہوا کہ اس نے بچے کے مرنے کا کس صبر سے انتظار کیا شاید اس کے اس انتظار نے اس بچے تک امداد فراہم کردی۔ سوچنے کی بات یہ تھی کہ اس تصویر میں بچہ بھی بھوکا تھا گدھ بھی بھوک سے بےحال اور فوٹو گرافر بھی اپنا شہکار فوٹو بنانے کی بھوک رکھتا تھا۔
مجھے اس میں گدھ کا کردار خوب لگا جس نے اپنا اصول نہیں توڑا اور آرام سے اس بچے کی موت کا منتظر رہا۔ ایک چار سالہ بھوکا بچہ، ایک بھوکا گدھ اور ایک فوٹو گرافر اس تکون کی تیز دھار نوک کے چبھنے سے پوری انسانیت لرز اٹھی اور یہ قیامت کا منظر تاریخ کا حصہ بن گیا کہ انسان اور جانور چرند پرند سب بھوک پیاس سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر تڑپ رہے تھے سوائے گدھ کے جس کو ان حالات میں وافر خوراک ملنے کی توقع تھی مگر وہ اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور اس بچے کی موت کا منتظر تھا۔ یہی شاید اس دنیا میں ایک گدھ کی ڈیوٹی اور زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ گدھ عجب پرندہ ہے جس کا سوچ کر عموماََ لوگوں کو گھن آتی ہے۔ جبکہ یہ ہماری پھیلائی گندگی کو دور کرتا ہے۔ اس کی سیاہ لمبی چونچ بڑے بڑے پر اونچی اڑان، مضبوط قوت مدافعت، نگاہ اور سونگھنے کی صلاحیت، نگاہ کی تیزی، زبردست ہاضمہ کہ بڑے سے بڑے مردہ اور گلے سڑے جانور کھا کر بھی ڈھکار نہ لے۔ اس کی بے شمار چیزیں اور خاصیتیں عقاب سے ملتی جلتی ہیں کہتے ہیں کہ عقاب، چیل اور گدھ لاکھوں سال پہلے ایک ہی نسل سے تھے۔ مگر پھر ایسا ہوا کیا ہوا کہ یہ سب الگ الگ ہو گئے۔ جی ہاں فرق صرف حلال اور حرام کا ہے۔
عقاب اپنا شکار خود کرکے کھاتا ہے اور گدھ کسی اور کے شکار کے مردار گوشت پر گزارہ کرتا ہے۔ یہ بلندی پر بھی اپنے پروں کی بدولت بغیر زور لگائے دور تک پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ گو عقاب اور شاہین کو ایک بہادر اور مثالی پرندے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ لیکن دنیا میں گدھ کی اہمیت اور ضرورت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔ اسے قدرت نے جو کام سونپا ہے وہ شاید کسی عقاب کی بہادری اور خودداری سے کسی طرح بھی کم تر نہیں ہے اور شاید ممکن بھی نہیں ہے۔ اسکی ہوائی جہازوں سے ٹکرانے کی باعث نسل کشی اور کمیابی نے لوگوں کو اس دنیا میں اس کی موجودگی سے ہونے والے ماحولیات مفاد کا شدت سے احساس دلایا ہے۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
گرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
بچپن میں گدھ نظر آتا تو بزرگ کہتے کہ اردگرد کوئی جانور مرا پڑا ہے۔ ہمارے اباجی کہتے کہ یہ وہ خدائی خدمت گار ہے جس کو مدد کے لیے بلانا نہیں پڑتا یہ خود ہی ماحول اور انسانی دنیا کی صفائی ستھرائی کی ڈیوٹی دیتا چلا آرہا ہے۔ عام حالات میں یہ کہیں نظر نہیں آتا لیکن جوں ہی کسی جانور یا پرندے کی لاش پھینکی جاتی ہے تو ناجانے کون سی وہ ایسی وائرلیس ہے جو اسے فوراََ خبر کردیتی ہے۔ یہ بڑا کریہہ پرندہ صرف مردار گوشت کھاتا ہے۔ اگر یہ پرندہ نہ ہو تو ہمارا ماحول بدبو اورتعفن سے رہنے کے قابل نہ رہے۔ اپنے کام کی وجہ سے گدھ کی اہمیت کسی عقاب سے قطعی کم نہیں ہے۔
فضا کی بلندیوں میں یہ چپ چاپ پرواز کرتا ہے لیکن جب خوراک مل جائے تو اپنی ڈروانی آواز میں خوب چلاتا ہے۔ اسے صبر و تحمل والا پرندہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خوراک تو اپنے وجود سے بھی زیادہ کھا لیتا ہے لیکن جلد بازی اور بےصبری کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ اگر جانور مر رہا ہو یا مرنے کے قریب ہو تو یہ تسلی سے بیٹھ کر اس کے مرنے کا انتظار بھی کر لیتا ہے۔ پھر یہ ہفتوں بھوکا رہنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اس پرندے کو موت کی علامت بھی سمجھا جاتا تھا کہ جہاں یہ منڈلاتے ہیں وہاں کوئی مردہ لاش ضرور پڑی ہوتی ہے۔ یہ اونچا تو اڑ سکتا ہے لیکن خود سے شکار کرکے کھانا اس کے نصیب میں نہیں ہے۔
پھرا فضاوں میں گرگس اگرچہ شاہیں وار
شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا
پاکستان میں پہلے گدھ ہاوس کے قیام کی خبر کسی عام آدمی کے لیے شاید اہم نہ ہو لیکن جنہوں نے بانو قدسیہ کی کتاب "راجہ گدھ" پڑھی ہے ان کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ اس ناول کا مرکزی خیال رزق حلال کے اسلامی تصور سے ہے لیکن معاشرے میں گدھ اور اس کے کردار کی اہمیت کو بھی بڑے اچھے طریقے اور کمال مہارت سے اجاگر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی انسان کو ان کی خصلتوں سے دور رہنے کی تنبیہ بھی کی ہے۔
گدھ لاشوں پر بننے والے بیکٹیریا کے پھیلاو کو روکنے میں مددگار ہوتے ہیں کیونکہ وہ انہیں ماحول سے ہٹا دیتے ہیں۔ گدھوں کی عدم موجودگی آوارہ کتوں کی آبادی میں اضافے کا سبب بنتی ہے جو سڑتی باقیات کو صاف کرنے میں غیر موثر ہوتے ہیں بلکہ کئی اور بیماریوں کے پھیلاو کا سبب بنتے ہیں۔ خبر کے مطابق پاکستان میں گدھ نایاب ہو گئے جن کی افزائش کے لیے پوری دنیا کی طرح پاکستان چھانگا مانگا میں ایک خصوصی والچر ہاوس تعمیر کیا گیا ہےکیونکہ یہ پرندہ اپنی بقا کے مسئلے سے آج بھی دوچار ہے۔ اس لیے محکمہ جنگلی حیات نے نایاب گدھ ریسکیو کرکے ان کی افزائش نسل کے لیے چھانگا مانگا کے جنگلات میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کے تعاون سے بحالی سنٹر قائم کیا ہے۔ جہاں خصوصی والچر پر جنگلی حیات کے ماہرین کی زیر نگرانی گدھ اس کی افزائش نسل پر تیزی سے کام کیا جارہا ہے۔
اس پرندےجس کو گدھ کہتے ہیں۔ اس کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ آج اس پرندے کی افزائش کو دیکھ کر اطمینان ہوا کہ ان کی آبادی اب بڑھ رہی ہے جو تشویشناک حد تک پہنچ گئی تھی اور یہ قدرتی طور پر خاکروب کہلانے والا پرندہ ہمارے علاقوں سے تقریباََ ختم ہوگیا تھا۔ آج کل ماحولیاتی آلودگی کے بڑھنے کی وجہ سے ان کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ اس لیے مزید گدھ ہاوس قائم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ کیا یہ گدھ ہاوس ان کی واپسی ممکن بنا پائیں گے؟ یہ سوال قبل از وقت ہوگا مگر امید ہے کہ ضرور ایسا ہو پائے گا۔
یہ پرندہ دراصل قدرت کے نظام میں صفائی کرنے والے پرندے کی حیثیت رکھتا ہے جو مویشیوں کی لاشوں اور آلائشوں کی تلاش میں کھلے میدانوں پر منڈلاتے نظر آتے تھے۔ امریکن اکنامک ایسوسی ایشن جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہےکہ ان پرندوں کے غیر ارادی طور پر ختم ہونے کی وجہ سے مہلک بیکٹیریا اور انفیکشن پھیلنے لگے۔ جس کے نتیجے میں پانچ سالوں میں ہر سال تقریباً پانچ لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے اس پرندے کی ضرورت کو محسوس کیا جانے لگا ہے تاکہ قدرت کا یہ ریسکیو سسٹم بحال رہے۔
انڈیا میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ ان کی آبادی تقریباً صفر ہوگئی تھی، جس کی وجہ مویشیوں کے لیے سستی نان سٹیرائڈل درد کش دوا ڈائیکلوفینک تھی جو گِدھوں کے لیے جان لیوا ہے جس پر2006 میں پابندی عائد کی گئی تھی جس کے بعد اب ان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے اور آج لوگ پھر سے ان گدھوں کو دیکھ پا رہے ہیں۔ یہ پرندہ بہت ضروری ہے اور اس کی بقاء ہمارے لئے بہت اہم ہے۔
ہمارے ہاں پنجاب یا دنیا بھر کے مقامات پر یہ پرندہ نسل کشی کا شکار ہے اور معدوم ہو رہا ہے۔ جس کی کئی وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔ مردہ جانوروں اور آلائشوں کو کھاتا یہ پرندہ ماحول دوست ہے جو ماحول کو گندی آلائشوں، بدبو اہم اور جراثیم سے پاک کرتا ہمارے لیئے صفائی کا کام کرتا ہے۔ اسے مردار خور کہا جاتا ہے مگر انسانی زندگی کو تعفن زدہ ہوا سے محفوظ بنانے کیلئے یہ بہت مفید ہے۔ ان چوٹیوں اور جنگلات پر اس کا خاص مسکن اور بسیرہ رہتا ہے۔ فائر سیزن اس کے اور اس کے بچوں کی نسل کشی کا ایک اہم سبب رہا ہے۔ مگر یہ جہاں بھی ہوں اپنی ڈیوٹی پر بن بلائے پہنچ ہی جاتےہیں۔ شاید انسانوں سے زیادہ انہیں اپنا صفائی کا فرض یاد رہتا ہے۔