Ehsas Ke Andaz
احساس کے انداز

عید پر جہاں پوری دنیا خوشی سے جھوم رہی ہوتی ہے وہیں میرئے بینک کے ساتھی اپنے کسٹمرز کو نئے کیش کی سہولت دینے اور انہیں راضی رکھنے کی ناکام جدوجہد میں پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ ایک بینک کے دوست ملے تو کہنے لگے کہ پورئے سال کسٹمرز کی خدمت کرکے انہیں خوش کرتے ہیں لیکن عید پر وہ نیا کیش نہ ملنے یا پھر کم ملنے پر ناراض ہو جاتے ہیں۔ وہ یہ بات کبھی نہیں سمجھتے کہ یہ نئی کرنسی اسٹیٹ بنک بناتا ہے اور ہمیں اتنی محدود تعداد میں دیتا ہے جس سے پچیس کروڑ عوام کی خواہشات کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
عید پر نیا نوٹ ایک جانب خوشی کا اظہار تو دوسری جانب ہماری دکھاوئے کا نفسیاتی پہلو بنتا جارہا ہے۔ عید کی خوشی نوٹوں کی نئی گڈی کے بغیر نامکمل لگتی ہے۔ بینکرز بے چارئے کہیں نہ کہیں سے انتظام کرکے عید رات کو بھی اپنے کسٹمرز کے گھر گھر نئے نوٹ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور جو بےچارئے انتظام نہیں کر پاتے وہ روپوش ہو کر یا اپنے فون بند کرکے اپنے آپ کو شرمندگی سے بچاتے ہیں۔ ایک بینکرکی سب سے بڑی عید کی خوشی یہی ہوتی ہے کہ وہ نئے نوٹوں سے لوگوں کی خوشیاں دوبالا کردئے۔ بےشک اس کے اپنے بچوں اور گھر والوں کے لیے نئے نوٹ نہ بچ سکیں۔
آدھی صدی کا عرصہ بینک ملازمت میں گزارا۔ اس مصروف ترین ملازمت کے دوران بینکار کے لیے ہر قدم پر ایک نیا چیلنج سامنے آتا ہے۔ بینکنگ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں ملازمین کے لیےایک میراتھن ریس ہر وقت جاری رہتی ہے۔ بس دوڑتے ہی رہنا ہے یہاں تک کہ یا زندگی ختم ہو جاتی ہے یا پھر ملازمت اختتام کو پہنچتی ہے۔ دور سے بینکنگ کی خوبصورتی اور گلیمر بہت ہی دیدہ زیب دکھائی دیتا ہے لیکن خوبصورت اور پرآسائش عمارات، لباس اور ماحول میں ملازمین کس سٹریس اور پریشر کو برداشت کرتے ہیں یہ وہی جانتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ عید کے موقع پر نئے نوٹوں کی ترسیل بینک ملازم کے لیے سب سے کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔
درحقیقت یہ بینکار کی صلاحیتوں کا سالانہ امتحان ہوتا ہے۔ وہ اپنے محدود وسائل میں کیسے اپنے کلائنٹ کو خوش رکھتا ہے بس یہی بینکنگ کے دوران مشکل ترین لمحات ہوتے ہیں۔ عید کے موقع پر نئے نوٹوں کی ترسیل ایک پیچیدہ اور دباؤ والا عمل ہوتا ہے۔ عوام کی بڑھتی ہوئی طلب، محدود سپلائی اور انتظامی چیلنجز اس عمل کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں اور بینکار کو شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
ایک جانب عوام نوٹوں کے حصول کے لیے اذیت کا شکار ہوتے ہیں تو دوسری جانب بینکار نئی کرنسی کی طلب پورا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ایک جانب عید کے موقع پر نئے اور چمکتے دمکتے نوٹ حاصل کرنا سب کی خواہش ہوتی ہے ہر شخص اپنے بچوں کو عیدی دینا نئے نوٹ کے بغیر ادھورا سمجھتا ہے کیونکہ کراکرے نوٹوں کی عیدی کے بغیر عید کی خوشیوں کونا مکمل تصور کرتا ہے۔ ہم سبھی نئی اور چمچماتی کرنسی کے پیچھے دوڑتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری جانب اسٹیٹ بنک آبادی کی ضروریات کے مطابق نئے نوٹ چھانپنے سے قاصر ہوتا ہے۔
پاکستان کی پچیس کروڑ آبادی کی ضروریات پورا کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ میری معلومات کے مطابق اب تک نئے نوٹوں کی ترسیل کے لیے کوئی بھی طریقہ کا کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسٹیٹ بنک کی طرف سے مختص کردہ نوٹ بڑی محدود تعداد میں ہوتے ہیں جبکہ طلب اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ جس سے بینک ملازمین عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایک جانب بینک کے لیے اپنے معزز کلائنٹ کی ضرورت کا خیال رکھنا ہوتا ہے پورے سال کی خدمات کا صلہ کلائنٹ عید پر نئے نوٹوں کی شکل میں حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ بینک کے پاس اتنا کیش نہیں ہوتا کہ ان کی ضروریا ت کو پورا کیا جاسکے۔
ایسے میں عام عوام تک نئے کیش کی رسائی ممکن ہی نہیں ہو پاتی اور وہ مجبوراََ بلیک مارکیٹ کا رخ کرتا ہے اور بینکار سرکاری پالیسوں، صارفین کی توقعات اور جان پہچان والوں کے دباؤ کے درمیان پس کر رہ جاتا ہے اور پھر اسکے اکاونٹ ہولڈر جو خصوصی رعایت اور توجہ کے خواہشمند ہوتے ہیں اور اگر کسی کو توقع سے کم نئے نوٹ ملیں تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں جبکہ کئی لوگ ضرورت سے زیادہ کرنسی کے بنڈل مانگتے ہیں جو دینا ممکن نہیں ہوتا جس کی وجہ سے بینکرز کو بسا اوقات غیر ضروری بحث وتکرار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مجھے رئیٹائرمنٹ کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ہمارئے معاشرئے میں پورے سال بینکار کی عزت و تکریم شاید اس لیے بھی کی جاتی ہے کہ عید پر نئے نوٹ مل سکیں گے۔ جبکہ ہمیں بینکرز کی مجبوریوں، بے بسی اور مشکلات کا احساس کرنا چاہیے کہ وہ کن حالات میں یہ سہولت آپ تک پہنچا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عوام اور بینکرز کے اس سالانہ مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟ سب سے پہلے تو عوام کو یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ عید کی اصل روح صرف نئے نوٹ حاصل کرنے اور انہیں بانٹنے میں نہیں ہے بلکہ عید کی اصل خوشی لوگوں میں خوشیاں بانٹنے میں پوشیدہ ہے۔ اگر چہ نئے نوٹ ہمارے کلچر کا حصہ بن چکے اور ہماری عید کی خوشیوں کو مزید خوبصورت بنا دیتے ہیں مگر تہوار کا اصل مقصد اپنوں کے ساتھ محبت، خلوص اورسخاوت کا اظہار کرنا ہوتا ہے ہمیں اپنے بینکارز پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے کی بجائے ان کی کاوشوں کی قدر کرنی چاہیے ان کی پیشہ وارانہ مجبوریوں کو سمجھنا چاہیے۔ نوٹ پرانہ ہو یا نیا اس کی قیمت ایک ہی ہوتی ہے۔
عید پر نئے نوٹوں کا کلچر ختم کرنے کے لیے اسٹیٹ بنک کو عید پر ان کا چھاپنا ہی بتدریج بند کردینا چاہیے لیکن کیونکہ لوگ برسوں سے اس روایت کے عادی ہوچکے ہیں اس لیے اچانک نئے نوٹ بند کرنے سے ممکن ہے کہ عوام میں ناپسندیدگی پیدا ہو سکتی ہے اس لیے ایک جانب بتریج کمی کی جائے اور دوسری جانب متبادل ھل جیسے ڈیجیٹل عیدی کو فروغ دیا جائے بچوں کے لیے دوسرے متبادل جیسے گفٹ کارڈ، کھلونے کا رجحان بھی پیدا کرنا چاہیے۔ عید سے دوسرئے ہی روز یہ کرنسی پرانی ہو جاتی ہے۔
پوری دنیا ڈیجیٹل کرنسی پر جاچکی ہے۔ مگر ہماری سوچ کی سوئی اب بھی نئے نوٹوں کی کڑکڑاتی گڈیوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ مفاد پرست عناصر کہیں نہ کہیں سے نئے نوٹ لےکر بلیک میں فروخت کرنے لگتے ہیں جو قانونی اور اخلاقی جرم ہوتا ہے۔ یہ عموماََ ذخیرہ اندوزوں، بینک عملے اور ایجنٹوں کی ملی بھگت سے چلتی ہے۔ اگر کوشش کریں تو شادی میں نوٹوں کے ہاروں کے رواج کے خاتمہ کی طرح یہ روایت بھی ختم نہ سہی کم تو ہو سکتی ہے۔
اپنے سابقہ بینکنگ کے تجربے کی روشنی میں ممکنہ حل یہ ہی ذہن میں آتے ہیں کہ نئی کرنسی کی رسد میں اضافہ کیا جائے اور ان کی منصفانہ تقسیم کے لیے ڈیجیٹل الاٹمنٹ سسٹم رائج کیا جائے تاکہ یہ سہولت سب تک پہنچ سکے۔ صارفین موبائل ایپس یا آن لائن بینکنگ کے ذریعے پہلے سے نئے نوٹ بک کر اسکیں۔ ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعے عیدی کو فروغ دیا جائے۔ بینک اور موبائل کمپنیاں خصوصی عیدی آفرز متعارف کرائیں جیسے ڈیجیٹل عیدی پر کیش بیک یا ڈسکاونٹ دیا جائے۔
سوشل میڈیا، ٹی وی، ریڈیو اور دیگر میڈیا پر اس روایت کے رجحان سے ہٹانے کی مہم چلائی جائے۔ تاکہ عوام کو ذہنی طور پر تیار کیا جاسکے اور متبادل طریقوں کی حوصلہ افزائی سے اس رجحان میں کمی لائی جاسکے۔ اس سے ناصرف بلیک مارکیٹ کا خاتمہ ہوگا بلکہ نئے نوٹ چھانپنے پر آنے والے اخراجات بھی کم ہوں گے جس سے معاشی وسائل کی بچت ہوگی جسے کسی ترقیاتی مقصد میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بینکوں پر دباؤ کم ہوگا اور سماجی رویئے میں تبدیلی آنے لگے گی۔
نوٹوں کی پرنٹنگ میں کاغذ کے لیے درختوں اور دیگر وسائل کا استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی نقصان ہوتا ہے۔ اس پریکٹس کے بند ہونے سے قدرتی وسائل محفوظ ہو نگے اور ماحولیاتی بہتری پیدا ہوگی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے معاشرتی رویے بدلنے ہونگے اور دکھاوئے سے نکل کر اصل خوشی کی طرف آنا ہوگا۔ یہ اصل خوشی تب ہی حاصل ہو سکتی ہے جب ہم سب کو اس خوشی میں شامل کر یں۔ اپنی خوشیوں کا معیار نئے نوٹوں تک ہی محدود نہ کریں بلکہ دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ اور خوشی بکھیرنے کے متبادل راستے تلاش کریں۔