Charah Gar Kuch Ilaj Is Ka Bhi Hai?
چارہ گر کچھ علاج اس کا بھی ہے؟
موسمیاتی تبدیلیوں نے ایک جانب تو گرمی شدت میں اس قدر اضافہ کردیا ہےکہ لوگ بلبلا اُٹھے ہیں دوسری جانب لوڈ شیڈنگ کی باعث گرمی سے تڑپنے پر مجبور ہیں اور تیسری جانب بجلی کے بڑےبڑے بلوں نے ان کو امتحان میں ڈال رکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس سال تاریخ کی شدید ترین گرمی اور حبس نے اپنا رنگ خوب دکھایا ہے اور چوتھی جانب حلق سے فلک تک مہنگائی کے طوفان نے پورے ملک کو گھیرا ہوا ہے۔
غریب کی آمدنی اس چھوٹی سی چادر کی مانند ہے جس سے وہ سر ڈھا نپتا ہے تو پیر ننگے ہو جاتے ہیں اور اگر پیروں کو چھپاتا ہے تو سر ننگا ہو جاتا ہے۔ پھر روزگار اور آمدنی کے متبادل مواقع بھی دکھائی نہیں دے رہے۔ مایوسی کی اس فضا میں معاشرے میں آپس کی تلخیاں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ جن کے نتائج بھی مختلف صورتوں میں سامنے آرہے ہیں۔ گذشتہ جمعہ کو ہماری مسجد کے امام صاحب نے مسجد میں سولر لگوانے کے لیے مدد کی درخواست کی تو محسوس ہوا کہ اب مسجدوں کے بل بھی ناقابل برداشت ہوچکے ہیں۔
گذشتہ روز کی خبر چونکا دینے والی تھی کہ گوجرانوالہ میں بجلی کا بل زائد آنے پہ دو بھائیوں میں جھگڑا ہوگیا بڑے بھائی نے تیز دھار آلہ سے چھوٹے بھائی عمر فاروق کو قتل کر دیا تفصیلات کے مطابق پرنس روڈ گرجاکھ محلہ میں مرتضی، عمرفاروق ایک ہی گھر میں رہائش پزیر تھے گزشتہ ماہ دونوں کو زیادہ بل آیا تو انہوں نے قسط کروائی اور 8 ہزار بقایا جات بن گئے اور اس ماہ جب بل آیا تو وہ 30 ہزار بن گیا دونوں بھائی محنت مزدوری کرتے تھے اور ایک دوسرے کو بل کاحصہ دینے پہ لڑائی ہوتی رہی اور یہ جھگڑا کئی روز سے چل رہا تھا۔
گذشتہ روز جب عمر فاروق کارخانہ سے واپس آیا تو دونوں میں بجلی کے بل کو لیکر آپس میں جھڑپ ہوئی تو دونوں لڑتے ہوئے گلی میں آگئے اور مرتضی نے تیزدھار آلہ سے بھائی کو شدید زخمی کر دیا جو زیادہ خون بہہ جانے پہ دم توڑ گیا جبکہ قتل کرنے والا بڑا بھائی مرتضی فوری طور پر موقع سے فرار ہوگیا، تصویر میں 31 ہزار بل کی خاطر بھائی کے ہاتھوں مارے جانے والا چھوٹا بھائی عمر فاروق اور بجلی کا بل بھی دکھایا گیا ہے۔
دکھ یہ ہے کہ اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ایک بھائی قتل ہوگیا اور دوسرا قانون کی گرفت میں آگیا اور بچے یتیم ہو گئے یوں یہ ہنستا بستا گھر پل بھر میں ساری زندگی کے لیے اس دردناک المیے سے دوچار ہوگیا ہے۔ اس سے قبل بجلی کے بلوں سے تنگ آکر خودکشی کا واقعہ بھی نظر سے گزر چکا ہے یعنی بجلی کے بلوں نے لوگوں کو خود کشی پر مجبور کر دیا ہے۔ پاکستان کے گھر گھر میں بجلی کے بلوں پر بحث اور جھگڑے عام ہوتے جارہے ہیں جسکی باعث گھروں کا سکون برباد ہو چکا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بجلی کے بل اسقدر بڑھا دئیے گئے ہیں کہ ایک غریب آدمی ان کی ادائیگی کیسے کر سکتا ہے؟ میرے ایک دوست کی تنخواہ تیس ہزار روپے ہے جبکہ ان کا بجلی کا بل چوبیس ہزار روپے آگیا ہے۔ ان میاں بیوی کی لڑائی بھی دیکھنے کو ملی ہے خاوند کا خیال ہے کہ بیوی کے بے بجا استعمال اور لاپرواہ رویے سے اتنا بل آیا ہے۔ گویا بجلی کے بل نے گھر گھر لڑائی کا راستہ کھول دیا ہے۔ لوگ ان بےتحاشا بلوں کی وجہ سے نہ صرف پریشان ہیں بلکہ چڑچڑاے ہو چکے ہیں۔
ان میں عدم برداشت کا رویہ بڑھتا جارہا معمولی معمولی بات پر جھگڑا اور تکرار دیکھنے میں آرہی ہے اور نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ سگے بھائی کے ہاتھوں سگے بھائی کا قتل ہوگیا ہے۔ انسانیت کا یہ المیہ ہماری آنکھیں کھولنے کو کافی ہے اور اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پانی سر سے گزر رہا ہے۔ آج ہر جگہ گفتگو کا ایک ہی موضوع ملتا ہے وہ ہے بجلی کا بل اور لوڈشیڈنگ کا بحران جبکہ سولر پینلز کی دکانوں پر رش کا یہ عالم ہے کہ اس بازار سے گزرنا مشکل ہو چکا ہے۔
ہماری ایک گھریلو ملازمہ بجلی کے بل کی ادائیگی کے لیے ادھار مانگتی پھرتی ہے وہ پریشان ہے کہ بچوں کا پیٹ بھرے یا پھر بجلی کا بل ادا کرے؟ اس سے بجلی کے بل کی بات کرو تو اس چار بچوں کی ماں کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ جبکہ بہت سے لوگوں نے اپنی قیمتی اشیاء فروخت کرکے بل ادا کئے ہیں لیکن آخر کب تک؟ اگلا بل پھر سوالیہ نشان بنا ہوا ہے؟ کہ کب تک اپنی جمع پونجی، ادھار اور اشیاء بیچ کر بل ادا کئے جاسکتے ہیں؟
ہمارے علاقے جنوبی پنجاب میں گرمی کی شدت کا اندازہ لگانا بہت مشکل کام ہے۔ یہاں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں چھ ماہ گرمی پڑتی ہے اور باقی چھ ماہ شدید گرمی پڑتی ہے۔ اس شدت کی گرمی اور درجہ حرارت کو صرف یہاں کے لوگ ہی محسوس کر سکتے ہیں کیونکہ یہاں بارش بھی نہ ہونے کے برابر ہی ہوتی ہے اگر ہو بھی جاۓ تو شدید حبس کی صورتحال گرمی کو اور بھی بدتر کر دیتی ہے۔
پہلے ایک اوسط گھر اپنی آمدنی کا پندرہ سے بیس فیصد بجلی کے بل کی مد میں مختص کرتا تھا جو اب پچاس سے ساٹھ فیصد تک جا پہنچا ہے۔ جبکہ ان کی آمدنی میں اضافہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اس پر لوڈ شیڈنگ اور وولٹج کی کمی کا عذاب الگ جھیلنا پڑتا ہے۔ بجلی کا بل لیٹ جمع ہو تو جرمانے کا خوف مارے جاتا ہے تو دوسری جانب اضافی یونٹس اور غلط ریڈنگ کی شکایت سننے والا کوئی نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بجلی کا بل غریبوں کے لیے ہی نہیں ہر ایک کے لیے کسی مصیبت سے کم نہیں ہے۔ ہر شخص آنے والے بجلی کے بل سے خوفزدہ ہے ہر جانب پریشانی کا عالم ہے کیونکہ بجلی کے بلوں نے عوام کا جینا مشکل کردیا ہے بل دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ یہ بجلی کا بل نہیں موت کا پروانہ ہے۔ گذشتہ جمعہ مسجد میں ایک غریب اور معذور شخص اپنا بجلی کا بل ہاتھ میں لیے اس کی ادائیگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اب ان بلوں کی ادائیگی بغیر آمدنی میں اضافے کے کیسے ممکن ہوگی؟ آخر کب تک ایسا ہی چلتا رہے گا؟
حقیقت یہ ہے کہ اب عوام بجلی کا یہ بھاری بوجھ برداشت کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ کچھ لوگوں نے کسی نہ کسی طرح سولر سسٹم تو لگوا لیا ہے مگر آئے دن کی سورج پر بھی ٹیکس کی افوہوں سے وہ بھی خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ حکومتی سطح پر بجلی کے بلز کے اس بےقابو جن کو کنٹرول کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے۔ اس حساس مسلے پر حکومتی توجہ کی فوری ضرورت ہے۔ ایک جانب تو گرمی میں کمی کے لیے شجرکاری کی مہم کو جنگی بنیاد پر نفاذ کرنے کی ضرورت ہے تو دوسری جانب بجلی کی لوڈشیڈنگ اور بلوں میں ریلیف دے کر عام آدمی کی زندگی کو کچھ پرسکون بنانے پر توجہ درکار ہے۔