Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Apne Apne Hisse Ka Kaam

Apne Apne Hisse Ka Kaam

اپنے اپنے حصہ کا کام

میرے ایک ڈاکٹر دوست جو میرے تمام کالم پڑھتے ہیں اور اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ چند دن قبل ایک شادی کی تقریب میں ملے تو کہنے لگے یار! آپ کے کالم مجھے پسند تو بہت آتے ہیں لیکن تمہیں یہ بھی پتہ ہے کہ اب لوگ کالم نہیں پڑھتے۔ لمبی لمبی تحریروں کا زمانہ گزر چکا لوگوں کے پاس اتنا وقت کہاں ہے؟ کہ آپکی تحریریں پڑھ سکیں۔ اب تو لوگ پڑھنے سے زیادہ بولنے اور سننے کو پسند کرتے ہیں۔

دوسرے اب کالم نگار بےتحاشا ہو چکے ہیں اور پرنٹ میڈیا اپنے اختتام کی حدوں کو چھونے جارہا ہے۔ اب تو اخبارات بھی ڈیجیٹل ہوتے چلے جارہے ہیں۔ پہلے اخبار اور اردو ڈائجسٹ وغیرہ سفر کے دوران پڑھے جاتے تھے۔ اب انٹرنیٹ نے موبائل کے ذریعے ان کی جگہ لے لی ہے۔ ہر چیز موبائل کی سکرین پر موجود ہے۔ آپکی تحریریں بڑی سبق آموز اور دلچسپ ہوتی ہیں اور ہر کالم اصلاحی ہوتا ہے۔ آپکے سیاسی تجزیے بھی وقت اور حالات کی نزاکت کا احساس دلاتے ہیں۔ عام آدمی کے معاشرتی اور معاشی مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل بھی خوب نکالتے ہو۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اب ڈیجیٹل دور ہے۔ اس لیے میری مانو تو ایک یو ٹیوب چینل بنا لو اس میں آمدنی بھی ہو جاتی ہے اور لوگ شوق سے دیکھتے بھی ہیں۔ اس سے شہرت بھی بہت ملتی ہے۔

میں ان کی بات سن کر مسکرایا تو وہ کہنے لگے یار میری بات بری تو نہیں لگی؟ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب میں شہرت، عزت یا دولت کے لیے یہ سب کچھ نہیں کرتا۔ بلکہ میں تو یہ سب کچھ اپنے حصہ کا کام اور اپنا فرض سمجھ کر کرتا ہوں۔ زمانہ ملازمت میں اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر زندگی نے وقت دیا تو معاشرے کی خدمت ضرور کرونگا۔ گو میں دکھی انسانیت کے مسائل حل تو نہیں کر سکتا لیکن ہائی لائٹ یا نمائیاں تو کر سکتا ہوں۔ اگر ایک شخص بھی میری تحریر پڑھ لے تو میرا فرض پورا ہو جاتا ہے۔ ہم سب دنیا میں اپنے اپنے حصے کا کام کررہے ہیں۔

پرنٹ میڈیا اور سکرین میڈیا اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ الیکڑک میڈیا کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ بجا ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے رجحان میں اضافے کے باوجود پرنٹ میڈیا اپنی انفرادیت برقرار رکھے ہوے ہے۔ یہ سوشل میڈیا کی نسبت زیادہ مستند اور قابل اعتماد ہوتا ہے۔ لوگ سوشل میڈیا سے زیادہ پرنٹ میڈیا پر یقین کرتے ہیں۔ جو افادیت کالم یا مضمون کی ہوتی ہے۔ وہ مقصد یہ سنسنی خیز الیکڑک میڈیا پورا نہیں کر پاتا۔ لوگ سچ کی تلاش میں پرنٹ میڈیا کی جانب دیکھتے ہیں۔

میں نے اپنے مضامین اور کالمز میں علاقائی صحافت کے تصور کو اجاگر کیا ہے اپنے علاقے کی سیاست، معاشرت، رواج، تہذیب وتمدن، فن وثقافت، تجارت ومعاش، معاشرتی اور زمینی مسائل کو موضوح تحریر بنایا ہے اور مقتدر حلقوں تک اپنے وسیب کی آواز پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے میرے کالم اور تحریریں پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں پڑھی جاتی ہیں اور ان تحریروں پر تبصرہ اور تنقید بھی کی جاتی ہے۔ میں اپنی شائع شدہ تحریروں کو فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ کے ذریعے تقریباََ پانچ ہزار لوگوں تک پہنچا دیتا ہوں پھر یہ پانچ ہزار لوگ اتنے ہی لوگوں آگے فارورڈ کرتے جاتے ہیں۔ جس سے پرنٹ میڈیا اور سکرین میڈیا دونوں اپنا اپنا کام کرتے ہیں اور بھلائی اور اچھائی کا پیغام اگر چند لوگوں تک بھی پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ بڑی غنیمت ہے۔

میرے کالمز اور تحریروں کا مقصد تو ایک ٹھہرے ہوے پانی میں کنکر پھینکنا ہوتا ہے جس سے اٹھنے والی لہریں دور تک پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ میں یہ تحریری محنت دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی ذہنی تسکین کے لیے بھی کرتا ہوں اور اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کی بجاے اس کا اظہار کردیتا ہوں یہ تحریریں مجھے احساس دلاتیں ہیں کہ میں اپنا وقت کسی اچھے مصرف میں لا رہا ہوں۔ لکھنا اور بولنا دو الگ الگ چیزیں ہیں ان دونوں کے اثرات بھی الگ الگ ہوتے ہیں اور ان کے سامعین اور قاری بھی بالکل علحیدہ علحیدہ ہوتے ہیں۔

ہمیں اس قاری کا بھی خیال رکھنا ہے جو صرف پڑھتا ہی نہیں بلکہ اپنے پاس ان تحریروں کو محفوظ بھی رکھتا ہے۔ تحریر کتاب کی صورت میں ہو یا پھر کسی بھی پرنٹ میڈیا پر ہو پڑھنے کا شوقین اسے ڈھونڈھ نکالتا ہے۔ پچھلے سال جب میں عمرہ کے لیے سعودی عرب گیا تو مجھے حیرت ہوئی کہ بہاولپور کے اورسیز پاکستانی میرے کالمز اور مضامین کے منتظر رہتے ہیں جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ سوشل میڈیا بھی پرنٹ میڈیا کو دور دور تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔

پاکستان میں بھی اخبارات کے قاری کی نظر میں اخبار کی اہمیت ایک ایسی پراڈکٹ کی سی ہے جس کو خریدے اور پڑھے بغیر اس کی تشنگی ختم نہیں ہوتی۔ آج بھی صبح کا آغاز ایک کپ چاے اور اخبار کے مطالعہ سے ہی ہوتا ہے کیونکہ الیکڑانک میڈیا معاشرے کو بروقت سنسنی خیز خبر فراہم کرتا ہے۔ جبکہ پرنٹ میڈیا تفصیل کے ساتھ خبر کا احاطہ کرتے ہوے قارئین کو اس خبر کی مکمل آگاہی دیتا ہے۔ اب تو سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بھی اخبارات کے بآسانی مطالعہ سے اخبارات کے قارئین کی تعداد میں اضافہ ہو ا ہے۔ پہلے میں بمشکل ایک اخبار خرید کر پڑھ سکتا تھا۔ اب مجھے سارے اخبارات اور رسائل تک گھر بیٹھے رسائی مل گئی ہے۔

ہمارے گلی کوچوں کے ڈھابوں، چائے خانوں، دفتروں، حجام کی دکانوں پر عوام اخبارات کا مطالعہ کرکے ملکی صورتحال پر بحث اور تبصرہ کرتی نظر آتی ہے۔ کالمز اور مضامین کی سماجی وسیاسی، تہذیبی و تمدنی، اخلاقی اور ہمہ گیر وسعت و معنویت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اب کالمز کا قاری کوئی دانشور ہی نہیں بلکہ ہر عام شخص بھی بن چکا ہے اور کالمز کی افادیت کا ادراک رکھتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ قلم ہی علم ودانش اور تہذیب انسانی کے ارتقاء کا بہترین ذریعہ ہے۔ جو قوموں کی تقدیر بدلنے اور غفلت میں ڈوبی قوموں کو بیدار کرنے واحد ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔

کہتے ہیں کالمز دراصل کالم نگار کے ضمیر کی وہ آواز ہوتی ہے جسے وہ کسی طرح بھی روک نہیں پاتا جن کے بدلے عوام الناس کی بےتحاشا دعائیں اور محبت ان کا مقدر بنتی ہیں۔ کالم نگار معاشرے کی تصویر کا ہر ہر رخ اپنے خیالات، نظریات اور فکرکے ذریعے قلم کی زبان سے اپنے مخصوص انداز سے خوبصورت الفاظ میں ڈھالتا ہےاور جو دیکھتا اور سوچتا ہے یا مشاہدہ کرتا ہے اسے اپنے الفاظ کے ذریعے دوسروں کے ذہنوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے ہمارے کالمز اور مضامین ہی ہماری ثقافت، مذہبی تعلیمات، اعلیٰ اخلاقی اقدار اور قومی ہیروز کی خدمات کو اگلی نسل تک ناصرف پہنچاتے ہیں بلکہ ان کو محفوظ بھی رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ تحریریں قارئین کی ذہنی سطح بلند کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

بعض اوقات کالم نگار کا کوئی ایک فقرہ یا سطر ایسی ہوتی ہے جو مدتوں انسانی ذہن میں محفوظ رہتی ہے اور وہ یہ مخصوص لفظ اور فقرہ بےشما ر لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ ہم جیسے رئٹائرڈ لوگوں کے پاس بھلا کالم نگاری سے اچھا اور کیا ہوسکتا ہے؟ لکھنے کے لیے پڑھنا اور سوچنا پڑتا ہے اور پڑھنے اور سوچنے کے لیے وقت دینا پڑتا ہے جو آج مجھے میسر ہے۔

میں نے فیس بک پر ایک پوسٹ پڑھی تھی کہ ایک شخص سمندر کے کنارے واک کر رہا تھا تو اس نے دور سے دیکھا کہ کوئی شخص نیچے جھکتا، کوئی چیز اٹھاتا ہے اور سمندر میں پھینک دیتا ہے ذرا قریب جاتا ہے تو کیا دیکھتا ہے ہزاروں مچھلیاں کنارے پہ پڑی تڑپ رہی ہیں شاید کسی بڑی موج نے انہیں سمندر سے نکال کر ریت پہ لا پٹخا تھا، اور وہ شخص ان مچھلیوں کو واپس سمندر میں پھینک کر ان کی جان بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسے اس شخص کی بیوقوفی پر ہنسی آگئی اور ہنستے ہوئے اسے کہا اس طرح کیا فرق پڑنا ہے، ہزاروں مچھلیاں ہیں کتنی بچا پاؤ گے یہ سن کر وہ شخص نیچے جھکا، ایک تڑپتی مچھلی کو اٹھایا اور سمندر میں اچھال دیا۔ وہ مچھلی پانی میں جاتے ہی تیزی سے تیرتی ہوئی آگے نکل گئی، پھراس نے سکون سے دوسرے شخص کو کہا: "دیکھو اسے تو فرق پڑا ہے؟

یہ کہانی ہمیں سمجھا رہی ہے کہ ہماری چھوٹی سی کاوش سے بھلے مجموعی حالات تبدیل نہ ہوں، مگر کسی ایک کے لیے وہ فائدے مند ثابت ہو سکتی ہے۔ لہذا دل بڑا رکھیں اور اپنی طاقت و حیثیت کے مطابق اچھائی کرتے رہیں، اس فکر میں مبتلا نہ ہوں کہ آپ کی اس کوشش سے معاشرے میں کتنی تبدیلی آئی؟ بلکہ یہ سوچیں کہ آپ نے اپنے حصے کی اچھائی کا حق کتنے حد تک ادا کیا؟ مخلوق خدا کی مدد کیجیے۔۔ اگر نہیں کر سکتے تو جو لوگ کر رہے ہیں ان پر تنقید نہیں بلکے حوصلہ افزائی کیجیے۔

جو شخص مدد مانگ رہا ہے چاہے جھوٹی ہی سہی اس پر شک نہ کیجیے بلکے یہ سوچ کر مدد کر دیں کروڑوں لوگوں میں اللّه نے آپ کو چنا ہے مدد کے لئے جواس کے دل میں ڈال کر بھیجا ہے۔ ورنہ وہ یہ کام کسی اور سے بھی لے سکتا تھا سوچیے گا ضرور یقین کیجیے سکون ملے گا۔۔ دنیا میں اچھائی اور بھلائی کے لیے اپنے اپنے حصے کا کام کریں جو لکھ سکتا ہے وہ لکھے جو بول سکتا ہے وہ بولے اور جو سننا چاہتا ہے وہ سنے اور جو پڑھنا چاہے وہ پڑھے اور سمجھے۔ یہی تو مقصد حیات ہے۔

Check Also

Danish Ki Jeet, Bewaqoofi Ki Haar

By Asif Masood