Tuesday, 24 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Jasmine Muhammad
  4. Sanan Abbas Ka Qasoor?

Sanan Abbas Ka Qasoor?

سنان عباس کا قصور؟

سنان عباس مجھے اس روز کورٹ روم میں ملا تھا جس روز اس کی والدہ کو، اس کے والد کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ میں شہر کا نام نہیں لکھنا چاہتی کیونکہ اس شہر کے لوگ میری فرینڈ لسٹ میں ہیں اور ممکن ہے کہ وہ اس کیس سے واقف نہ ہوں اور اس پوسٹ کو پڑھنے کے بعد کھوج میں لگ جائیں۔ اور جو کبھی میرے دل کے ٹکڑے کو اس شہر میں آنا نصیب ہو تو اس کو من پسند کہانی سنا کر، انجانے میں ہی ایذا رسانی کا سبب بن جائیں یا مجھ سے ہی اس شہر کے بارے میں سوال پوچھ کر میرے دل کو ٹھیس پہنچا بیٹھیں۔ اور میرا دل تو نہیں دکھنا چاہیے ناں سائیں!

خیر! اس دن جب میں عدالت میں گئی تو سیدھا دیوار کے ساتھ رکھے لکڑی کے بنچ پر بیٹھ کر دیوار سے ٹیک لگا لی۔ ٹیک لگانے کی وجہ یہ تھی کہ میرا بایاں بازو پلستر میں تھا اور ہاتھ میں ناخنوں تک سوجن تھی، بنا سہارے کے بیٹھنا دشوار تھا۔

جناب محمد علی وڑائچ صاحب میرے فیورٹ جج ہیں۔ میں ان کی عدالت میں نوٹس لیتی رہتی ہوں لیکن اس روز بس بے دھیانی سے کیسز کی معمول کی کارروائی دیکھ رہی تھی۔

میں نے نوٹ کیا کہ میرے بنچ کے ساتھ رکھے بنچ پر برقعہ پوش خاتون بیٹھی ہوئی تھی اور بنچ کے ساتھ رکھی کرسی پر لیڈی کانسٹیبل، میں نے فرش پر کھیلتے ہوئے بچے کو بھی نوٹس کیا۔ جو ہلکی سی آواز میں احتجاج کر رہا تھا کیونکہ اس کی ماں اور لیڈی کانسٹیبل مسلسل اسے دبی دبی آواز میں جھڑک رہی تھیں کہ وہ فرش پر کھیلنے سے باز رہے تاکہ جج صاحب ناراض نہ ہوں۔ حالانکہ جناب محمد علی وڑائچ صاحب کبھی بھی بچوں سے تنگ نہیں آتے۔

خیر! میں نے ان کو نظر انداز کیا اور دیوار سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔ اچانک مجھے چرچراہٹ کی آواز سنائی دی۔ میں نے چونک کی آنکھیں کھولیں تو وہ بچہ بنچ پر رکھی ہوئی میری فائلز پر بہت ہی چھوٹی سی کار چلا رہا تھا، جس سے چر چر کی آواز پیدا ہو رہی تھی۔ میں نے اس کو دیکھا تو میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ سہم کر پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے ہاتھ سے فائلز کو اپنی طرف سرکا لیا۔ جب میں نے دوبارہ اس کو دیکھا تو اس کا اترا ہوا چہرہ اور ناراض آنکھیں جیسے میرے دل میں اتر گئیں۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ہی فائلز دھیرے دھیرے اس کی طرف سرکا دیں۔ وہ ایک دم ساری ناراضی بھلا کر، فائلز پر کار چلانے لگا۔

اس کے بعد اڑھائی گھنٹے، وہ میرے ساتھ باتیں کرتا رہا، کھیلتا رہا اور کھانے کی چیزیں شئیر کرتا رہا۔ اس دوران مجھے اس کی ماں کے کیس کے بارے میں بھی علم ہوا۔ اس کی ماں نے ایک ٹین ایجر کے ساتھ مل کر اپنے شوہر کو قتل کیا تھااور کمرے کے فرش کو کھود کر دفن کیا تھا۔ دو ماہ بعد مقتول کے بھائی نے اغواء کی ایف آئی آر درج کروائی تو دوران تفتیش، خاتون کے موبائل فون سے قتل کی واردات سامنے آ گئی۔ خاتون اور وہ لڑکا دونوں پکڑے گئے۔ لاش برآمد ہوئی اور بات ٹرائل تک پہنچ گئی۔ اس دوران مقتول کی تین بیٹیوں کو ان کے ننھیال والے لے گئے اور جیل میں مقتول کی چوتھی اولاد سنان عباس، اس دنیا میں آئی۔ جسے تقدیر نے مجھ سے، اس دن ملوایا، جب اس کے بے گناہ باپ کو انصاف ملنے والا تھا اور انصاف کا یہی عمل معصوم سنان عباس کو بہت سالوں کے لیے اڈیالہ جیل میں قید کرنے والا تھا۔

جج صاحب نے جب فیصلہ سنایا تو ملزمہ لیڈی کانسٹیبل کے ساتھ، جج صاحب کے سامنے جاکھڑی ہوئی اور اپنی عمر قید کا فیصلہ سننے لگی جبکہ سنان عباس میرے سامنے کھڑا مجھے اپنی انگلی پر لگی ایک چوٹ کا قصہ سناتا رہا۔ میں نے اسے خاموش رہنے کو نہیں کہا کیونکہ وکلا کی بحث اخیر سے مجھے فیصلے کا اندازہ ہو چکا تھا۔

جج صاحب نے فیصلہ سنایا تو لیڈی کانسٹیبل نے فوراً ہی سنان عباس کی والدہ کو چلنے کا کہا۔ سنان کی ماں، سنان کو لینے کے لیے بنچ کی طرف آئی۔ اس کا بازو پکڑا اور مجھے خدا حافظ کہہ کر کورٹ روم کے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ سنان عباس نے مڑ کر دیکھا، مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا اور کہا" مجھے ملنے میرے گھر آنا"

یہ وہ لمحہ تھا کہ جس نے مجھے ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ میں ان کے پیچھے لپکی اور سنان عباس کی ماں کو کندھے سے پکڑ کر اپنی متوجہ کیا۔ وہ لوگ بہت تیز چل رہے تھے اورمجھے ان کے ساتھ تقریباً بھاگنا پڑ رہا تھا۔ میں نے سنان کی ماں سے اس کے کسی رشتہ دار کا نمبر مانگا۔ اس نے ایک اور خاتون کی طرف اشارہ کر دیا جو کہ اس کی بہن تھی۔

میں وہیں رک گئی اور وہ لوگ تیزی سے آگے بڑھ گئے۔ سنان کو ایک پولیس والے نے اٹھایا اور کچہری کے مین گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔ پیچھے پیچھے سنان کی ماں لیڈی کانسٹیبل اور دیگر پولیس والوں کے ساتھ تھی۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو جیسے پتھر کی ہو گئی۔ سنان عباس پولیس والے کے کندھے کے اوپر سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ان کے پیچھے بھاگ کھڑی ہوئی۔ ان کے گیٹ تک پہنچنے سے پہلے میں نے انہیں روک لیا۔

ظاہر ہے کہ میں سنان عباس کو اٹھا نہیں سکتی تھی تو زمین پر بیٹھ گئی۔ پولیس والے نے اسے نیچے اتارا تو وہ خود آ کر میرے گلے لگ گیا اور بس۔۔۔۔ کوئی خاموش وعدہ ہو گیا کسی ساتھ کا۔

میں نے اس کا ہاتھ چوما تو اس نے اسی انداز میں میرا ہاتھ چوم لیا۔ اب قربان ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

آگے کی کہانی قدرے مختلف ہے۔

اب سنان عباس اڈیالہ جیل میں ہے۔

بس اس سے زیادہ نہیں لکھ سکتی۔

پروردگار اس کے لیے کوئی معجزہ کر دے اور اس کے حق میں وہ کر دے جو بہتر ہے آمین ثم آمین۔

Check Also

Baani Pti Ka Maro Ya Mar Jao Wala Pegham?

By Nusrat Javed