Youm e Siyah, Tareekhi Pas e Manzar
یوم سیاہ ، تاریخی پس منظر
مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر کے کشمیری مسلمان ہر سال 27 اکتوبر کو یوم سیاہ کشمیر اس عزم کو دہراتے ہوئے مناتے ہیں کہ ایک روز کشمیر کی وادی قابض بھارتی فوج کے تسلط سے ضرور آزاد ہو گی اور وہاں آزادی کا سورج طلوع ہو گا۔ پاکستان میں بھی کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے یوم سیاہ کشمیر کے حوالے سے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ دنیا کو باور کرایا جا سکے کہ کس طرح بھارت نے 27 اکتوبر 1947 کو کشمیری عوام کی امنگوں کے برعکس علاقہ پر ناجائز قبضہ کر لیا تھا اور تب سے لے کر آج تک کس طرح کشمیری مسلمانوں کا حق خودارادیت سلب کیا جا رہا ہے۔
یہ بات ہے سن 1947 کی جب تقسیم ہند کے موقع پر طے پائے گئے فارمولے کے تحت برصغیر کی 562 ریاستوں کو آزاد چھوڑ کر یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی ریاستوں کے جغرافیائی و معاشی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی عوام کی خواہشات کے مطابق پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں یا اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھ سکتے ہیں چونکہ ریاست جموں و کشمیر کی 80 فیصد سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔
اس لئے وہ سب پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے اگر جغرافیائی اور معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو بھی ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان سے الحاق موزوں ترین تھا کیونکہ نہ صرف ریاست جموں و کشمیر کی چھ سو میل لمبی سرحدیں مغربی پاکستان کے ساتھ مشترک تھیں بلکہ ریاست میں دنیا کے ساتھ ڈاک اور تار کا نظام بھی پاکستان کے ذریعے ہی قائم تھا اس کے علاوہ کشمیر کی تمام درآمدات اور برآمدات کا راستہ بھی پاکستان سے وابستہ تھا۔
ان تمام تر حقائق اور کشمیری عوام کی امنگوں کے پیش نظر ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق بہترین اور موزوں تھا، کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کو دل سے تسلیم کر چکے تھے مگر ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی بجائے سرینگر کے ہوائی اڈے بھارتی فوج کے لئے کھول دیئے اور جعلی الحاق کر کے ریاست پر ان کا ناجائز قبضہ کروا دیا۔
پاکستانی فوج اور قبائلیوں نے کاروائی کرتے ہوئے کشمیر کا ایک حصہ بھارتی فوج کے قبضہ سے چھڑا لیا جو کہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔ 27 اکتوبر 1947 سے لے کر اب تک بھارتی قابض فوج ڈیڑھ لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کا خون مقبوضہ وادی میں بہانے کے باوجود ان کی آزادی کی خواہش کو دبانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کی خواتین کو محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے بہانے بھارتی فورسز کے ہاتھوں مسلسل اغوا، جنسی تشدد، غیر قانونی حراستوں اور چھیڑ چھاڑ کا سامنا ہے۔
جبکہ بھارتی حکومت نے "آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ" نام سے ایک کالا قانون بنا رکھا ہے جس کے ذریعے جنسی تشدد میں ملوث بھارتی فوجیوں کو سزا سے بچایا جاتا ہے، بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو غیر قانونی حراست میں لینے کے لئے دو کالے قوانین "پبلک سیفٹی ایکٹ" (PSA) اور "غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا قانون" (UAPA) بنا رکھے ہیں۔
اگست 2019 میں مودی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ علاقے میں ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ کشمیر کی جیلوں میں قید تحریک آزادی کے کارکنوں کو خودکشی یا حادثات ظاہر کر کے قتل کیا جا رہا ہے اب تک 200 سے زائد قیدیوں کو کشمیر کی جیلوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں منتقل کیا جا چکا ہے تاکہ وہاں ان کو دی جانے والی اذیت ناک موت کا کسی کو پتہ نہ چل سکے۔
مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز پر آباد کاری کرتے ہوئے ایک طرف مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے تو دوسری جانب اب تک پینتالیس لاکھ سے زائد ہندوؤں کو ڈومیسائل جاری کر کے وہاں آباد کیا جا رہا ہے جبکہ 25 لاکھ بھارتی شہریوں کو متنازعہ علاقہ میں ووٹ ڈالنے کا غیر قانونی حق دے دیا گیا ہے اس کے علاوہ دریائے چناب پر ریلوے ٹریک بنا کر مقبوضہ وادی کو بھارت کے بڑے ریلوے نیٹ ورک کے ساتھ منسلک کرنے کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
بھارتی حکومت نے اپنی دس لاکھ سے زائد فوج تعینات کر کے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے کشمیر کا دیرینہ تنازعہ حل کرانے کے لئے اپنا کردار ادا نہ کیا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کے سائے منڈلاتے رہیں گے۔