Taleem Ka Almi Din
تعلیم کا عالمی دن
دین اسلام میں تعلیم کو بڑی قدرومنزلت حاصل ہے جس کااندازہ نبی کریم ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہونے والی پہلی وحی سے بھی لگایاجاسکتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے "اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا"اسی طرح آپؐ نے بھی ارشاد فرمایا"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔"اولیاء کرام بھی اپنی دینی تعلیمات میں لوگوں کوعلم حاصل کرنے کی تلقین فرماتے رہے۔ قائد اعظم ؒ اور علامہ اقبالؒ اپنے افکار میں نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتے رہے۔
تقریبا پندرہ سو سال قبل جو بات اللہ اور نبی کریم ؐ نے بتائی تھی آج دنیا اس پر عمل کررہی ہے۔ اقوام متحدہ نے جب تعلیم کی اہمیت کو جانا تو 3دسمبرسن 2018 میں جنرل اسمبلی نے ایک قرراداد منظور کرتے ہوئے24 جنوری کو تعلیم کا عالمی دن قررا دیا، جس کے بعد دنیا بھر میں 24جنوری سن2019 میں تعلیم کاپہلا عالمی دن منایا گیا، تاکہ دنیا کو بتایا جاسکے کہ تعلیم حاصل کرنا ہر فرد کا بنیادی حق ہے۔
سن2019میں تعلیم کاپہلا عالمی دن منایا ہی گیا تھا کہ دنیا میں کورونا کی وباء پھیل گئی جس کے بعد لاک ڈاون لگنے سے تعلیمی ادارے بھی بند کرنا پڑے۔ کورونا کے باعث جب184 ممالک کے سکول بند ہوئے تو ایک ارب سے زائدبچے مکمل طور پر سکول کی تعلیم سے محروم ہوگئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وبائی امراض سے متاثر ہونے والے تین سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے 75 ملین بچے دنیا کے35 ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔
پاکستان کی موجودہ شرح خواندگی 62۔ 3 ہے جس کا مطلب ہے کہ ملک میں ایک اندازے کے مطابق 60 ملین کی آبادی ناخواندہ ہے۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت کی ترجیح قومی شرح خواندگی کو بڑھانا ہے۔ اسی مناسبت سے وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کی وزارت نے خواندگی کو قومی تعلیمی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ کورونا ویکسین لگانے کے بعد ایکٹو کیسز میں کمی ہونا شروع ہوئی تو تعلیمی ادارے کھول دیئے گئے
جونہی کورونا کے نئے ویرینٹ اومیکرون کا حملہ ہوا تو کورونا ایکٹو کیسز میں پھر سے اضافہ ہونا شروع ہوگیا جس کے باعث محکمہ تعلیم کو نئی حکمت عملی جاری کرنا پڑی جس کے تحت نیا تعلیمی سال یکم اپریل کی بجائے یکم اگست سے شروع کرنے اورموجودہ تعلیمی سال کا اختتام 31 مئی کو کرنے کا فیصلہ کیا گیا اسی طرح اگلا تعلیمی سال یکم اگست کو شروع ہوگا اور 31 مارچ 2023 کو ختم ہوگا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ کورونا وباء کے دوران بھی پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں نہ صرف نئے تعلیمی ادارے قائم کئے بلکہ پہلے سے موجود اداروں کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے بھی خصوصی اقدامات کئے۔
صوبہ بھر میں اس وقت ہائرایجوکیشن کے197ترقیاتی منصوبے جاری ہیں، جن پر15ارب روپے لاگت آئے گی۔ ان منصوبوں کے تحت راجن پور، مظفر گڑھ، لیہ، بھکر، حافظ آباد، بہاولنگراور ڈیرہ غازی خان میں یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایاجارہا ہے۔ اس کے علاوہ شیخوپورہ، قصور، اٹک، گوجرانوالہ اور دیگر اضلاع میں بھی یونیورسٹیاں بنائی جارہی ہیں، جبکہ 88نئے کالجز کا قیام بھی عمل میں لایا جارہا ہے۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار سکولوں میں مسلم طلبا کو قرآن پاک بطور لازم مضمون پڑھانے کا سلسلہ بھی شروع کیا جارہا ہے۔ جس کے تحت پہلی سے پانچویں جماعت کے مسلم طلبا و طالبات کو قرآن پاک ناظرہ پڑھایا جائے گا، جبکہ چھٹی سے بارہویں کے مسلم طلبا کو قرآن پاک ترجمہ و تفصیل کے ساتھ پڑھایا جائے گااس سلسلے میں قرآن مجید کی تعلیم دینے کے لئے ایک لاکھ اساتذہ کو خصوصی تربیت بھی دی جا رہی ہے۔
پنجاب میں پہلی بار اقلیتوں کیلئے ہائر ایجوکیشن کے اداروں میں 2فیصد خصوصی کوٹہ مقر ر کیاگیا ہے اس کے علاوہ مینارٹی ڈویلپمنٹ فنڈکے لئے 1ارب روپے رکھے گئے ہیں، میٹرک سے پی ایچ ڈی کی تعلیم کیلئے اقلیتی طلبا و طالبات کو سکالر شپ بھی دیئے جائیں گے۔ پنجاب حکومت نے اس کے علاوہ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو مکمل طورپر ڈیجیٹلائز ڈ، مستحق اور نادار بچوں کواربوں روپے کے رحمت اللعالمین سکالر شپس، بھٹہ مزدوروں کے بچوں کی تعلیم کے لئے خصوصی سکول، یکساں نصاب تعلیم کے لیے لرننگ مینجمنٹ سسٹم جیسے اقدامات بھی کئے گئے ہیں۔
کورونا کے باعث آئے روز میڈیا پرتعلیمی اداروں کے اچانک کھلنے یا بند ہونے سے متعلق خبریں دیکھ کرطلباء اس وقت ایک غیر یقینی صورتحال اور نفسیاتی کشمکش کا شکار ہوچکے ہیں اس لئے حکومت کو چاہیے کہ ایسے ٹھوس اقدامات کرے کہ نہ صرف طلباء میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ ہوسکے بلکہ ان کے تعلیمی مستقبل کو بھی محفوظ بنایا جاسکے۔