Punjab Food Authority Aur Imported Haram Gosht
پنجاب فوڈ اتھارٹی اور امپورٹڈ حرام گوشت
چند روز قبل پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ٹیم حسب معمول ایک ہوٹل پر کھانا چیک کر رہی تھی کہ معلوم ہوا کہ ہوٹل میں فروخت کیا جانے والا کھانا باسی اور کئی سال پرانا مضرِ صحت گوشت میں تیار کیا گیا ہے۔ قارئین کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ اکثر ہوٹلز، ریسٹورنٹس پر کھانے پکانے کے لئے ایسے شیف کو ملازمت پر رکھا جاتا ہے جو باسی کھانے کو مرچ مصالحوں کے کمبینیشن سے تازہ اور مزیدار بنانے کا ماہر ہو۔
ایسے ماہر شیفس کو تنخواہ بھی کچھ زیادہ دی جاتی ہے تاکہ وہ باسی کھانے زیادہ مزیدار بنائے اور یہ راز بھی کسی پر افشا نہ ہونے دے۔ اتفاق سے پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اس روز ایک ایسے ہی ہوٹل پر چھاپہ مارا تھا جس کے شیف نے باسی اور مضر صحت گوشت کو مزیدار اور تازہ ڈش میں تبدیل کر دیا تھا، ماہرین فوڈ اتھارٹی کو جب کنفرم ہو گیا کہ کھانا باسی ہے تو انھوں نے وہاں ضروری محکمانہ کاروائی کی اور پھر ہوٹل کو مضرِ صحت گوشت بیچنے والے سپلائر مافیا کا سراغ لگانے کا فیصلہ کیا۔
چنانچہ تحقیقات کے بعد جلد ہی ٹیم کو ایک ایسے خفیہ کولڈ سٹوریج کا سراغ ملا جہاں تین سال پرانا گوشت فروخت کے لئے سٹور کیا گیا تھا، مزید تفتیش پر پتہ چلا کہ برآمد ہونے والا گوشت امپورٹڈ سری پائے، کھد، زبان اور باسی گوشت پر مشتمل تھا، سارا گوشت قبضہ میں لے لیا گیا اور پھر اسے پیمکو بھٹی میں جلا کر تلف کر دیا گیا۔
اس کارروائی کے بعد پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل مدثر ریاض ملک نے بتایا کہ برآمد ہونے والا سات ہزار کلو گوشت ہمسایہ ممالک سے منگوایا گیا تھا جو تین سال پرانا تھا اور اس گوشت میں حلال حرام کی تفریق بھی نہیں کی گئی تھی۔ اس طرح پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ایک ہوٹل سے خفیہ کولڈ سٹوریج تک بروقت اور ایک بڑی کاروائی سے پاکستان کے بڑے شہر لاہور کے باسی، مضر صحت اور حرام گوشت کھانے سے بچ گئے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی جولائی 2017 سے پنجاب کے تمام چھتیس اضلاع میں ایک فعال ادارے کے طور پر کام کر رہی ہے، اب تک اتھارٹی اپنے اہل عملہ اور ماہرین صحت کے ہمراہ بے شمار کاروائیاں کر چکی ہے اور صوبے کے عوام کو مضر صحت دودھ، خشک دودھ، کھانے، گوشت، دالیں، مصالحہ جات اور دیگر مضر صحت اشیائے خورد و نوش سے محفوظ رکھنے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہے۔
آئے روز یہ خبریں پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کاروائیوں کے دوران ہزاروں لیٹر مضر صحت دودھ یا کئی من بیمار اور مردہ مرغیاں تلف کر دیں گئیں۔ فوڈ اتھارٹی کا قیام جب سے عمل میں لایا گیا ہے اس کی ملاوٹ مافیا کے خلاف کاروائیاں جاری ہیں لیکن مدثر ریاض ملک کے ڈائریکٹر جنرل بننے کے بعد سے ان کاروائیوں میں مزید تیزی آ گئی ہے۔
ابھی چند روز قبل مدثر ریاض ملک کی سربراہی میں فوڈ اتھارٹی نے ایک معروف جوس بنانے والی فیکٹری اور سنیکس تیار کرنے والی فیکٹری پر چھاپے مار کر مضر صحت جوس اور سنیکس تلف کئے تھے۔ مدثر ریاض ملک سابق ڈپٹی کمشنر لاہور و ملتان اور کمشنر ڈیرہ غازی خان بھی رہ چکے ہیں اس لئے شائد وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ملاوٹ مافیا سے کس طرح نمٹنا ہے۔
فوڈ اتھارٹی کی ذمہ داریاں سنبھالتے وقت انھوں نے ملاوٹ مافیا کو خبردار کر دیا تھا کہ وہ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے کاروبار بند کر دیں اس اعلان کے بعد انھوں نے اپنی تعیناتی کے چند دنوں کے دوران ہی بڑی بڑی کمپنیوں اور فیکٹریوں پر چھاپے مارے اور طاقتور ترین ملاوٹ مافیا کو قانون کے شکنجہ میں لے آئے۔ خفیہ کولڈ سٹوریج سے حرام اور مضر صحت گوشت برآمد کرنے کے بعد اب ان ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کا پتہ لگایا جا رہا ہے جہاں پر یہ گوشت فروخت کیا جا رہا تھا۔
میرے آج کے کالم کا مقصد یہ تھا کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی جس طرح شہریوں کی زندگی بچانے کے لئے اقدامات کر رہی ہے اس کو سراہا جائے لیکن اس بات کا بھی دکھ ہے کہ موت کا کاروبار کرنے والا مافیا لاہور کے شہریوں کو لوکل کچھوؤں، گدھوں، کتوں حتیٰ کہ مردوں تک کا گوشت کھلانے کے بعد آج بھی موت کا کاروبار کر رہے ہیں، اس مافیا کا کاروبار بند تو نہیں ہوا البتہ مافیا نے ترقی کرتے ہوئے معصوم عوام کو اب لوکل کی بجائے امپورٹڈ حرام گوشت کھلانا شروع کر دیا ہے۔
پنجاب حکومت کو انسانی زندگیوں سے کھیلنے والوں کے خلاف سخت قانون سازی اور نئے اداروں کا قیام عمل میں لانا ہو گا۔ اس سلسلہ میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کو چاہئے کہ مضر صحت کھانوں کو تازہ بنانے والے شیفس کے خلاف بھی کاروائی کرے اس کے علاوہ علاقائی سطح پر ٹیمیں تشکیل دی جائیں تاکہ ملاوٹ مافیا کے خلاف بروقت کاروائی کر کے انسانی جانوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔