Omicron, Corona, Sardi Aur Fizai Aloodgi
اومیکرون، کورونا، سردی اور فضائی آلودگی
ملک بھر میں لوگوں کو کورونا ویکسین کی ڈوز لگانے کا عمل شروع ہوا تو کورونا کے ایکٹو کیسز میں کمی آنا شروع ہو گئی، لیکن جب کورونا کے نئے ویرئنٹ اومیکرون نے حملہ کیا توکورونا کے ایکٹو کیسز میں ایک مرتبہ پھر سے اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ کورونا اوراومیکرون کے ساتھ ساتھ سردی کی شدت میں اضافہ، شمالی علاقہ جات میں شدید برفانی طوفان، ڈینگی اور میدانی علاقوں میں خراب ائیر کوالٹی انڈیکس کے بڑھنے سے زندہ رہنے کی اُمیدیں دم توڑتی جارہی ہیں۔
پہلے کہا جاتا تھا کہ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن اب مرنے والوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ موجودہ دور میں مختلف وباؤں کے باعث ہر دوسرا فرد بخار، نزلہ زکام، کھانسی اورسانس کی بیماریوں میں مبتلا ہے، جبکہ کورونا اور اومیکرون کے مریضوں کی تعداد اس سے الگ ہے۔ محکمہ پرائمری اینڈ ہیلتھ کئیر پنجاب کی جانب سے جاری کردہ حالیہ اعدا شمار کے مطابق پنجاب میں کورونا کیسز کی کل تعداد 451135 ہوچکی ہے جبکہ صوبے بھر میں میں کورونا کے ایکٹوکیسز کی کل تعداد 8290 تک پہنچ چکی ہے۔
پنجاب میں کورونا کے ایکٹوکیسزکی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو ایک مرتبہ پھرعوام سے اپیل کرنی پڑی کہ وہ کورونا سے بچاو کے لئے ویکسین لازمی لگوائیں اور حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی اپیل پر عوام کس قدر عمل کرتے ہیں، اس بات کا اندازہ آپ مارکیٹوں، بازاروں، شادی تقریبات، دفاتر، پارکس، عوامی مقامات پر جاکر دیکھ سکتے ہیں۔
ہماری عوام اکثر حکومت کو بے حسی کا طعنہ دیتی رہتی ہے لیکن درحقیقت سب سے بڑے بے حس ہم خود ہیں، جس کا اندازہ حالیہ مری سانحہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ شدید برفانی طوفان میں پھنسے افراد کو زندہ رہنے کے لئے جو قیمت چکانی پڑی وہ تاریخ کا ایک ایسا بدنما حصہ بن گیا ہے، جو ہمیشہ عبرت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ شدید برفانی طوفان میں برف کی قبروں میں اللہ کو پیارے ہونے والے افراد کے بارے میں بین الاقوامی میڈیا نے رپورٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس میں قدرت سے زیادہ قصور وار انسان ہے، کچھ بین الاقوامی میڈیا نے اسے قدرتی آفت کی بجائے قتل قرار دیا ہے۔
جب مری سانحہ رونما ہوا توہر دل سوگوار اورہر آنکھ اشکبار تھی لیکن اس نازک موقع پر بھی ایسے بے حس لوگ دیکھنے کو ملے جو مری سانحہ سے باخبر ہونے کے باوجود اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ موت کی وادی میں جانے کے لئے پولیس اور انتظامیہ سے الجھتے رہے۔ اسی لئے سیانے کہتے ہیں کہ اکثرناعاقبت اندیش جھوٹی خوشیاں منانے کے چکر میں خود کو اور دوسروں کی زندگیوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔
ایسا ہی ایک دلخراش واقعہ گذشتہ روز لاہور کے علاقہ نصیر آباد میں ہونے والی ایک شادی کی تقریب میں ہوا جب باراتی نے ہوائی فائرنگ شروع کردی، اہل خانہ اسے بارہا ہوائی فائرنگ سے منع کرتے رہے لیکن وہ باز نہ آیا اور اس کی ہوائی فائرنگ کی زد میں آکر دو سگے بھائی جاں بحق ہوگئے جن میں سے ایک بھائی پولیس کے محکمہ اے وی ایل ایس میں کانسٹیبل تھا۔ آئی جی پنجاب راو، سردار علی خان نے ملزمان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا حکم دیتے ہوئے شہریوں سے بھی گذارش کی ہے کہ ہوائی فائرنگ جیسا خونی کھیل خوشیوں کو غم میں بدل دیتا ہے اس لئے ایسے قانون شکن عناصر کو اپنی خوشیوں کی تقریبات میں مدعو نہ کیا کریں۔
شادی کی تقریب میں ہوائی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے افراد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس طرح کے واقعات ہر روز اخبارات میں پڑھنے کو ملتے ہیں لیکن قانون شکن عناصر اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے افراداپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ بات کرتے ہیں فضائی آلودگی کی، پنجاب کے دیگر شہروں کی نسبت لاہورکی فضاء ابھی بھی خطرناک حد تک آلودہ ہے۔ محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے حالیہ جاری کردہ ائیر کوالٹی انڈیکس کے مطابق لاہور کے علاقہ کینال ویو سوسائٹی میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی کاا نڈیکس 277 ریکارڈ کیا گیا جبکہ راولپنڈی میں ائیر کوالٹی انڈیکس 93، فیصل آباد میں 71 اور رحیم یار خان میں 91ریکارڈ کیا گیا۔
انڈیکس کے حالیہ اعدادشمار بتاتے ہیں کہ لاہور کی فضائیں ابھی بھی خطرناک زون میں ہے جس کی وجہ سے شہریوں کی بہت بڑی تعداد سانس لینے میں دشواری، نزلہ زکام، کھانسی، بخار جیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ہسپتالوں اور کلینکس پر مریضوں کا رش لگا ہوا ہے پھر بھی عوام حکومتی گائیڈ لائینز پر عمل نہیں کرتی، اس لئے ملک میں کورونا، اومیکرون، سردی کی شدت اور فضائی آلودگی سے مقابلہ کرنے کے لئے ہر شہری کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔